حق دو تحریک کا سندھیوں کو ملاح نہ رکھنے کا مطالبہ، سندھی ماہی گیر پسنی چھوڑ کر چلے گئے

حق دو تحریک کا سندھیوں کو ملاح نہ رکھنے کا مطالبہ، سندھی ماہی گیر پسنی چھوڑ کر چلے گئے
حق دو تحریک کی جانب سے سندھ سے تعلق رکھنے والے ملاحوں کو نہ رکھنے کے سخت مطالبات کے بعد متعدد سندھی ماہی گیر پسنی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اس وجہ سے کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ فش اور آئس کمپنی مالکان نے غیر معینہ مدت تک کمپنیاں بند کرنے کا اعلان کردیا۔
اس اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کیلئے کمپنی مالکان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ فش کمپنیاں انڈسٹریز کی مانند ہیں جو پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر آپ انڈسٹریز کو بند کرینگے تو اس کا مطلب یہ کہ آپ ملک میں معاشی ترقی اور سرگرمیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا پورے بلوچستان کے ساحلی پٹی پر مقامی اور غیر مقامی افراد کام کر رہے ہیں، مگر پسنی میں ایک سازش کے تحت ماہی گیری کے کاروبار کو ٹھپ کرکے اس پر قدغن لگائی جا رہی ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔
کمپنی مالکان کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک کی جانب سے سندھی ملاحوں پر پابندی لگانے سے فیکٹریوں میں کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔
فش فیکٹری مالکان کے مطابق بیشتر مقامی کاروباری لوگوں کی لانچوں اور کشتیوں کو سندھ سے تعلق رکھنے والے ناخدا چلا رہے ہیں۔ حق دو تحریک کے اس بلا جواز مطالبے کی وجہ سے کاروباری حضرات کی متعدد کشتیاں ساحل سمندر پر لنگر انداز ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
پریس کانفرنس سے فیکٹری مالکان نے کہا کہ حق دو تحریک کی جانب سے یہ عجب منطق پیش کی جا رہی ہے کہ غیر مقامی سندھی ناحدا نہیں بن سکتے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھی اگر ملاح بھی ہوں تو وہ فقط مزدور ہی ہیں کیونکہ لانچ اور کشتیاں یہاں کے مقامی لوگوں کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے غیر مقامی سندھی ملاح اور مزدور انتہائی پرامن لوگ ہیں، نہ انہوں نے کسی کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی ان کی وجہ سے مقامی ماہی گیروں کو نقصان پہنچا ہے باوجود کہ مقامی لوگوں کے کاروبار پر قدغن لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مالکان کا کہنا تھا کہ جیونی سے لے کر ڈام تک کاروبار بالترتیب جاری اور ساری ہے مگر ضلع گوادر کے شہر پسنی میں زبردستی کاروبار کو ٹھپ کیا جا رہا ہے۔ اس پر صوبائی حکومت سمیت ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ان سے پوچھے کہ ہمیں کیوں کاروبار کرنے نہیں دیا جا رہا۔ یہ کون سے قانون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں سمندر میں ماہی گیری کرنے کے لئے ملاح مقامی ہو۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ چند قوتیں پسنی میں کاروباری لوگوں کو پریشان کرکے ان کے کاروبار میں خلل پیدا کرنیکی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا آپ سندھی ملاحوں پر اس لئے قدغنیں لگا رہے ہیں کہ سندھی ناخدا محنت مزدوری کرکے یہاں پر اپنے لئے بس دو وقت کی روٹی کماتے ہیں تو اس میں کوئی مدلل و قانونی جواز موجود نہیں ہے۔

راشد حیدر کا تعلق گوادر پاسنی بلوچستان سے ہے، آپ صحافی ہیں اور مقامی پریس کلب کے ممبر ہیں۔