مسلم لیگ ن اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات طے پا گئے

مسلم لیگ ن اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات طے پا گئے
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔ ٹکٹوں کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کا پہلے پہل یہ موقف ضرور تھا کہ میرے امیدوار کسی جماعت کیساتھ مل کر نہیں بلکہ آزاد حیثیت سے میدان میں اتریں گے، اس لئے ن لیگ انھیں سپورٹ کرے۔ لیکن یہ بات ان کے گروپ نے ہی نہیں مانی۔

انہوں نے بتایا کہ تاہم مسلم لیگ ن کی قیادت کا موقف تھا کہ جب تک آپ کے پاس ''شیر'' کا نشان نہیں ہوگا، آپ کو ہمارا ووٹ منتقل نہیں ہو سکے گا۔ تاہم اگر آزاد الیکشن لڑنے کی کوشش کی تو آپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ پیپلز پارٹی کی جانب بھی گئے ہیں۔ ابتدائی سٹریٹیجی یہی ہے کہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے بغیر ہی تحریک عدم اعتماد کو ٹیبل کیا جائے گا۔ تاہم پی ٹی آئی کے اندر سے ملنے والی طاقت کو استعمال کیا جائے گا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جہانگیر ترین کیساتھ ملاقات کی کوشش کو اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ عمران خان ایک تیسری قوت کی مدد سے انھیں کنٹرول تو کرتے رہے لیکن انہوں نے ان کیساتھ ہمیشہ ایک فاصلہ برقرا رکھا۔ اس لئے ترین گروپ کو بڑی دیر پہلے ہی یہ سجھ آ گئی تھی کہ عمران خان نے انھیں آئندہ الیکشن میں ٹکٹ نہیں دینا۔ اس وقت عمران خان اور جہانگیر ترین کی ملاقات بے سود ہوگی کیونکہ وہ اپنے اراکین کو کیسے گارنٹی دیں گے کہ آئندہ الیکشن میں انھیں پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔

پروگرام میں شریک گفتگو وقار ستی کا کہنا تھا کہ چیزیں آہستہ آہستہ اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اپوزیشن کے دونوں دھڑے جن میں پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ انہوں نے الگ الگ سے اپنے لانگ مارچ کا اعلان تو کر دیا تھا لیکن 27 فروری والا لانگ مارچ اختیار کر گیا ہے کیونکہ سیاسی ڈویلپمنٹ بہت تیزی کیساتھ ہو رہی ہے۔ تمام ابتدائی معاملات کو طے کیا جا چکا ہے۔ اب بس ان پر عملدرآمد باقی رہ گیا ہے۔ پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کا ہر شہر میں بھرپور استقبال کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرے گی۔ خیبرپختونخوا سے جمیعت علمائے اسلام کرے گی۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان بھی جلسے کے روز ہی کئے جانے کی توقع ہے۔ اس صورت میں پی ڈی ایم کی دیگر قیادت بھی جلسے میں آ سکتی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے پی ڈی ایم کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کا لانگ مارچ اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل نہیں ہوگا۔

وقار ستی کا کہنا تھا کہ میری اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ق مکمل طور پر آن بورڈ ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کیساتھ میری ملاقات کی روشنی میں مجھے علم ہوا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا اعلان 8 یا 9 مارچ کو جلسے میں ہونا متوقع ہے۔ جبکہ اس کو پیش کرنے کی ممکنہ تاریخ مارچ کا دوسرا ہفتہ ہے۔

اس وقت حکومت اپنے تمام اتحادیوں کیساتھ 178 پر کھڑی ہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 162 ہے۔ تاہم خیال رہے کہ ان میں علی وزیر شامل نہیں ہیں۔ 172 کی نمبر گیم پوری کرنے کیلئے اپوزیشن کو صرف 10 بندے چاہیں۔ میں پورے وثوق کیساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ مسلم لیگ ن کیساتھ اس وقت حکومت کے 15 ارکان اسمبلی موجود ہیں جن کیساتھ تمام معاملات طے کرتے ہوئے وعدے کر لئے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پوری کی پوری باپ پارٹی بھی اپوزیشن میں شامل ہو سکتی ہے لیکن ابھی یہ چیز فائنل نہیں ہوئی۔ میری اطلاعات کے مطابق دو اتحادی حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ ابھی تو کہا جا رہا ہے کہ صرف عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی لیکن اپوزیشن نے طے کیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد والے دن اگر علی وزیر کے پروٹیکشن آرڈر جاری نہ کئے گئے تو اسے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کیخلاف بھی پیش کر دیا جائے گا۔