نور مقدم قتل کیس، کیا مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزا ہو جائے گی؟

نور مقدم قتل کیس، کیا مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزا ہو جائے گی؟
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے چار مہینے کے مسلسل عدالتی کارروائی کے بعد نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو 24 فروری 2022ء کو سنایا جائے گا۔
سیشن کورٹ کے جج عطاء ربانی نے کیس کی سماعت کی، جس میں مدعی کے وکیل نے حتمی دلائل دیے جبکہ گذشتہ سماعت میں تمام ملزمان کے وکلا نے حتمی دلائل مکمل کر لئے تھے۔
نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر پر قتل کے علاوہ ریپ اور اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔ تعزیرات پاکستان کے تحت قتل اور ریپ کی سزا موت ہے۔
سرکاری وکیل حسن عباس نے منگل کے روز اپنے دلائل میں اس مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے جج عطاء ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشرے کا ہر فرد آپ کی طرف دیکھ رہا ہے، لہٰذا عدالت ان تمام ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دی جانے جو کہ آنے والے ایسے مقدموں کے لئے مثال ثابت ہو۔
نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم نے عدالت میں خود کو بے گناہ اور بعد میں ذہنی مریض ثابت کرنے کے لئے کئی حربے استعمال کئے جس کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر کئی تبصرے ہوئے کہ مرکزی ملزم سزا سے بچ جائے گا۔ مگر قانونی ماہرین اور اس کیس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو ہر حال میں سزا ہو جائے گی۔
نور مقدم قتل کیس کے مدعی شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈوکیٹ نے کل ہونے والے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بعض لوگوں کی جانب سے یہ دلائل دیئے جا رہے ہیں کہ یہ کیس ایک UnSeen قتل ہے، جس کا کوئی گواہ نہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آن کے خلاف شواہد نہیں ہیں۔
شاہ خاور ایڈوکیٹ کے مطابق ظاہر جعفر کی وہاں موجودگی اور نور مقدم کی لاش کی وہاں سے برآمدگی سمیت سی سی ٹی وی ریکارڈنگ اور دیگر سائنسی بنیادوں پر موجود شواہد مرکزی ملزم کو سزا دینے کے لئے کافی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ استغاثہ نے اس کیس کو ایک موثر انداز میں پیش کیا اور ہم پرامید ہیں کہ ان کو سزا ہو جائے گی۔ شاہ خاور ایڈوکیٹ کے مطابق اس کیس کے فیصلے سے نور مقدم کے خاندان سمیت اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے والوں کو اطمینان ہو جائے گا کہ اس کیس میں انصاف کیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت ان کے دیگر معاونت کاروں پر تعزیراتِ پاکستان 302 کے تخت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ جن کی سزا سزائے موت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کل سزائے موت ہو جاتی ہے تو پھر سیشن کورٹ پر فوجداری قوانین کے تحت یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ ریفرنس ہائیکورٹ بھیج دیں۔ جب تک دو ججز ان کے سزائے موت کو یقینی نہیں بنائیں گے تب تک اس پر عمل درآمد یقینی نہیں ہوگا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔