'یہ الیکشن تقریر تھی، عمران خان اب نکالے جانے کے بعد کا سوچ رہے ہیں'

'یہ الیکشن تقریر تھی، عمران خان اب نکالے جانے کے بعد کا سوچ رہے ہیں'
مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ان چیزوں کے بارے میں بتایا جو اس وقت بیچیں گے جب اقتدار میں نہیں ہونگے۔ ان میں سے ایک امریکا مخالفت جبکہ دوسرا یہ کہ میں پاکستان کو جنت بنا دیتا، اگر مجھے نہ نکالا گیا ہوتا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے تقریر کے پہلے 7 منٹ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اپنے عظیم خیالات پیش کئے۔ انہوں نے ارشاد فرمایا کہ آزاد پالیسی کے بغیر ملک آزاد نہیں ہوتا لیکن وہ شاید یہ بتانا بھول گئے کہ غلام معیشت کیساتھ آزادی کے نعرے لگانے سے بھی ملک آزاد نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر پوتین کیساتھ ملاقات کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی لب کشائی نہیں کی کہ وہاں سے ہم پاکستانیوں کیلئے کیا کچھ لے کر آئے ہیں۔ سوائے اس کے کہ ہم وہاں سے 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرینگے۔

پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) قوانین کے بارے میں وزیراعظم کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کے نام پر اس ملک میں شور مچایا جا رہا ہے۔ عمران خان نے پیکا قانون کا جس طرح دفاع کیا، وہ دھامڑ پن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ انہوں نے خود اعدادوشمار پیش کئے کہ 94 ہزار کیسز ایف آئی اے کے پاس ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے صرف ان کو محسن بیگ ملا تھا۔

پروگرام کے دوران شریک گفتگو عامر غوری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، ایسی باتیں وہ پہلے بھی کر چکے ہیں۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے ان کا قوم سے خطاب ضروری نہیں تھا۔ یہ اعلان وزارتیں نوٹیفیکیشن کے ذریعے بھی کر سکتی تھیں۔

عامر غوری نے کہا کہ پاکستان کی فارن پالیسی پر وزیراعظم نے ایک لفظ ادا نہیں کیا۔ ہم ان کے دورہ روس سے واپسی پر ابھی تک پریشان ہیں جبکہ پوتین کے آفس کی جانب سے بھی کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔ وزیراعظم کا یکطرفہ بیان ہی سامنے آ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی جانب سے اپنے خطاب میں 3 اعلانات اس لئے کئے گئے کیونکہ بلاول بھٹو لانگ مارچ کیلئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن نے جو بھی سیاسی ہانڈی چڑھا رکھی ہے، اس کے نیچے وہ آگ تیز کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں ہر طرح کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ ان کو دیکھتے ہوئے مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان نے اپنی آج کی تقریر میں منشور دیدیا ہے۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کوئی بڑی بات نہیں، اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو 30 ہزار روپے ماہانہ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 31 فیصد پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔ یہ اعلان انھیں راغب کرنے کی کوشش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کو اس وقت شدید ذہنی پریشانی ہے۔ اس بات کا اندازہ دیکھنے والے ان کی باڈی لینگوئج سے بھی لگا لیتے ہیں۔

توصیف احمد خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کافی عرصے سے گھبرائے ہوئے ہیں۔ ماضی میں ان کے دائو چل رہے تھے لیکن اب ایسا نہیں، انھیں اندازہ ہو چکا ہے کہ میں اب بند گلی میں پہنچ چکا ہوں۔ خان صاحب سے زیادہ کسی کو اندازہ نہیں کہ ان کا معاملہ اب کس حد تک چل سکتا ہے۔ تاہم یہ وقت وہ اپنے اوپر خود لے کر آئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس سے کیسے نکلتے ہیں۔ اگر کوئی انٹرنیشنل گارنٹی نہیں ہے تو ان کا سامان پیک ہو چکا ہے۔ تاہم اگر ہے تو پھر ان کا کوئی چانس ہے۔

نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے لگا وہ اپنی وضاحتیں دے رہے ہیں۔ بجٹ جون میں آنا ہوتا ہے لیکن انہوں نے آج ہی اسے پیش کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر کا آغاز وزیراعظم نے آزاد خارجہ پالیسی سے کیا۔ یہ ایسے بیانات ہیں جو الیکشن مہم کے دوران تو اچھے لگتے ہیں لیکن ایک سرابراہ مملکت کی حیثیت سے الفاظ کا چنائو درست نہیں تھا۔ میرے خیال میں ان کی یہ بات absolutely not سے بھی آگے جائے گی۔ یہ چیز پاکستان کیلئے بری ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی آئسولیشن میں ہے۔