ایم کیو ایم نے سانحہ 12 مئی پر معافی مانگ لی

ایم کیو ایم نے سانحہ 12 مئی پر معافی مانگ لی
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے 12 مئی 2007ء کے روز کراچی میں ہونے والے فسادات پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ ہم شرمسار ہیں، ہم استعمال ہوئے تھے۔ یہ معافی انہوں نے آج کوئٹہ میں وکلا برادری سے خطاب کرتے ہوئے مانگی۔

خالد مقبول صدیقی 8 اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں بم دھماکے میں شہید ہونیوالے وکلا کی فاتحہ خوانی کیلئے بلوچستان ہائیکورٹ پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب بھی کیا۔

اردو نیوز کے مطابق خالد مقبول صدیقی کے خطاب کے بعد سوال وجواب کے سیشن میں ایک وکیل نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 12 مئی 2007ء کو شہر میں آپ نے اتحادی کی حیثیت سے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ساتھ دیا، اس روز جو کچھ ہوا اس کا داغ آپ پر بھی لگا اس پر آپ کیا کہیں گے؟

اس پر ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، بالکل ہماری جماعت پر سانحہ 12 مئی کا داغ لگا۔ میں آپ کے سامنے معافی مانگتا ہوں۔ ہم استعمال ہوئے ہیں اس کے لیے ہم شرمسار ہیں اور آپ سے معافی مانگ رہے ہیں۔ تاہم ہمارا ایسا ارادہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ ہمارا طریقہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم پر لسانی سیاست اور جناح پور جیسے بہت سے الزامات لگائے گئے۔ 1947ء کے بعد پاکستان آنے والے مہاجرین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ ایم کیو ایم حالات کی پیدوار ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئرکا کہنا تھا کہ ہم نے الطاف حسین سے پاکستان مخالف نعروں کی وجہ سے علیحدگی اختیار کی۔ ایسا کسی دباؤ پر نہیں کیا کیونکہ اگر 1992ء میں اتنے بڑے فوجی آپریشن کے بعد بھی ہم نے الطاف حسین کو نہیں چھوڑا۔

خیال رہے کہ کراچی میں 12 مئی 2007ء میں ہونیوالے فسادات کے پندرہ سال بعد بالاخر یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیو ایم کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے اس واقعے پر معافی مانگی ہے۔

12 مئی 2007ء میں معزول چیف جسٹس افتحار چودھری، سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی حکومت کی جانب سے اپنی معطلی کیخلاف وکلا اور سیاسی جماعتوں کی احتجاجی تحریک کے سلسلے میں کراچی میں جلسہ کرنا چاہتے تھے۔

تاہم ان کے کراچی پہنچنے سے پہلے ہی وکلا تحریک کی حامی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورپرویز مشرف کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں کم از کم 48 افراد قتل ہوئے تھے۔ مرنے والوں میں وکلا بھی شامل تھے۔