'نمبرز کے ساتھ نام بھی بتا دوں؟'

'نمبرز کے ساتھ نام بھی بتا دوں؟'
اسلام آباد: سابق صدر آصف علی زرداری، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سپیکر آفس میں جمع ہو چکی ہے اور ہمیں اس کی رسید بھی مل گئی ہے۔ اس موقع پر تینوں رہنماؤں نے حکومت پر کڑی تنقید کی۔

'اب تاخیر کی تو نہ عوام معاف کریں گے، نہ اللہ'

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا کہ 22 کروڑ عوام کو قرضے لے لے کر گروی رکھ دیا گیا ہے۔ اس حکومت کو ایک ہی کام آتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے کیے ہوئے کاموں پر اپنی تختیاں لگا لیں۔

انہوں نے کہا کہ خارجہ محاذ پر اس حکومت کی یہ بدترین ناکامی ہے کہ جن ممالک نے ہر حال میں ہمارا ساتھ دیا، حکومت نے ان کو ناراض کر دیا۔ وزیر اعظم جب وزیر اعظم نہیں تھے اور بعد ازاں ان کے وزرا نے سی پیک میں کیڑے نکالے، اس پر تنقید کی۔ 2014 میں کون سا دوسرا ملک تھا پوری دنیا میں جو پاکستان کی مدد کو تیار تھا۔ چین یہاں بجلی کے کارخانے لگا رہا تھا۔ یہ کہاں کی خارجہ پالیسی تھی کہ اسے ناراض کر دیا جائے۔

سعودی عرب ہمارا قریبی دوست ہے۔ وزیر خارجہ نے اس پر بھی کھلے عام تنقید کی۔ میلسی میں تقریر کی تو یورپی یونین کے خلاف انتہا کر دی۔ سب کو پتہ ہے کہ پاکستان کی یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت ہے۔ اور بیٹھے بٹھائے ان کے خلاف تقریر کر دی۔ یہ کس قسم کی خارجہ پالیسی ہے؟

شہباز شریف نے کہا کہ ان سب باتوں کو دیکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ ایک شخص مسائل کا ماخذ بن گیا ہے۔ یہ ہم اپنی ذات کے لئے نہیں کر رہے۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپوزیشن پر عالمی سازش کا آلہ کار بننے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اتنی بری کارکردگی کے بعد بھی ایک شخص کہے کہ یہ عالمی سازش ہے؟ یہ بیروزگاری، مہنگائی، سستی گیس دستیاب ہونے کے باوجود مہنگی گیس خریدنا بین الاقوامی سازش ہے؟ قطر سے ہم نے گیس سستے داموں خریدنے کا معاہدہ کیا، اسے ختم کر کے مہنگا تیل درآمد کر کے اس سے بجلی بنائی، یہ بین الاقوامی سازش ہے؟ بیرونی فنڈنگ کیس پر کچھ نہیں ہوتا، اپنے قریبی لوگوں کی کرپشن پکڑتے نہیں، اپوزیشن کو تو دیوار میں چنوا رکھا ہے، کیا یہ بین الاقوامی سازش ہے؟

ہم نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کے کیا اور یہ 22 کروڑ عوام کی خواہشات کی عکاسی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد سپیکر آفس میں جمع ہو چکی ہے، اس کی رسید ہمیں مل چکی ہے۔ یہ ہم صرف عوام کی خاطر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کیا نہیں کیا اپوزیشن کے ساتھ؟ بہنوں، بیٹیوں تک کو جیلوں میں ڈلوایا۔ لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ قانون کی عملداری ہونی چاہیے۔ اور اسی لئے ہم یہ تحریکِ عدم اعتماد لائے ہیں۔ ہم نے بہت تفصیلی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اور ہم اسی نتیجے پر پہنچے کہ اگر اب ہم نے تاخیر کی تو نہ عوام ہمیں معاف کریں گے اور نہ ہی اللہ ہمیں معاف کرے گا۔

'ان کی بساط اب لپٹ چکی ہے'

مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف صاحب نے ہم سب کی ترجمانی کی ہے۔ ساڑھے تین سال سے جس طرح ملک کو ہر حوالے سے انحطاط کی طرف دھکیلا گیا ہے، میں شہباز شریف کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے بات آگے بڑھاؤں گا۔

ہمیں کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ ہمیں دس، بارہ سال سے عمران خان کی گفتگو سطحی ہی دکھتی تھی۔ جس طرح انہوں نے NGO کراؤڈ ے ذریعے ملک پر مغربی ایجنڈا نافذ کرنے کی کوشش کی، اس سے واضح تھا کہ یہ بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کا ایجنٹ ہے۔

ہم نے 2018 الیکشن کے ایک ہفتے کے اندر اندر مؤقف اختیار کر لیا تھا کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھا۔ مختلف جماعتوں کے مختلف مؤقف تھے لیکن اس معاملے پر کہ عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، اس پر ہم ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ 2019 کا مارچ، پیپلز پارٹی کا آج کا مارچ، اس سب نے عوام میں شعور بیدار کیا ہے۔ جو کچھ ہم نے کہا تھا، وہ درست ثابت ہوا۔ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے آج کہ ملک انحطاط کی طرف گیا ہے۔

ملک کے اندر عوام ہیں۔ ملک کے باہر دوسرے ممالک ہیں۔ اگر آپ نے معیشت کو بہتر کیا تو عوام آپ سے خوش ہوں گے لیکن ساتھ ہی عالمی برادری بھی آپ سے بات کرے گی، آپ سے تجارت کرے گی۔ 2018 میں 5.5 فیصد جی ڈی پی تھی اور اگلے سال کا ہدف 6.5 فیصد کا تھا لیکن یہ حکومت 0 سے بھی نیچے لے گئی۔ ملک کی معیشت کمزور ہوئی۔ اسی لئے آج عالمی برادری میں بھی ہم کمزور ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم کی تقریر کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔ ان کی بساط اب لپٹ چکی ہے۔ کوئی آئیڈیل باتیں اب بچا نہیں سکتیں۔ جو کچھ آپ نے کرنا تھا، کر لیا۔ آپ نے دنیا کو دھوکہ دیا، عوام کو دھوکہ دیا، نوجوان نسل کو 50 لاکھ نوکریوں کا وعدہ کیا۔ 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا لیکن لوگوں کے گھر گرا دیے۔ ہم سے آئیڈیل باتیں نہ کیا کرو۔ ہم نے اس وقت بھی تمہیں دھوکے باز سمجھا تھا۔ آج بچہ بچہ جانتا ہے۔

مولانا نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بڑے بڑے نام نہ لو۔ ہم تمہیں جانتے ہیں۔ ہم تمہارے اندر کی غلاظتوں کو جانتے ہیں۔ آپ ہمیں جلسوں میں گالیاں دے رہے ہیں، تو ظاہر ہے، جو آپ کے اندر ہوگا وہی باہر آئے گا۔

چین کی بات ہے تو پیپلز پارٹی کی حکومت بھی CPEC کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مسلم لیگ کی حکومت آئی تو اس نے یہ نہیں کہا کہ PPP نے غلط کیا، اس نے اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔ آپ نے ایسے دوست کو ناراض کر دیا؟ اختلاف رائے ہم سے بڑھ کر کون کرتا ہے؟ امریکہ یا مغرب کی مخالفت ہم کرتے ہیں، ہم سے بڑھ کر کون کرتا ہے؟ لیکن ہمیں طریقہ آتا ہے۔ ہم نے بندوق نہیں اٹھائی۔ ہمیں فوج سے بہت پیار ہے لیکن پالیسی پر اختلاف ہوا ہے تو وہ بھی کھل کر کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو چکی ہے اور ہم اپنی کامیابی کا یقین رکھتے ہیں۔ قوم جلد ہی نجات کی خوشخبری سنے گی۔

'ویلکم بیک حامد میر'

سابق صدر آصف علی زرداری نے ان خبروں کی تصدیق کی کہ حامد میر آج جیو نیوز پر واپس آ رہے ہیں۔ سابق صدر نے کہا کہ صحافت جمہوریت کا بہت بڑا ستون ہے۔ ہم نے روزِ اول سے اس پر یقین رکھا ہے۔ جب بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت آئی تو اس وقت کاغذ حکومت کی مرضی سے درآمد کیا جاتا تھا۔ ہم نے اسے آزاد کیا۔ اور آج حامد میر صاحب واپس آ رہے ہیں۔ ویلکم بیک حامد میر۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ یہ معاملہ چلتا جا رہا ہے اور خراب ہو رہا ہے۔ ہمیں نظر آ رہا تھا کہ یہ خرابی اس حال کو پہنچ جائے گی کہ ہم ٹھیک نہیں کر سکیں گے۔ ہم سب نے فیصلہ کیا کہ کوئی ایک پارٹی اکیلی ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال سکتی۔ اس لئے فیصلہ کیا کہ ہم سب مل کر آگے بڑھیں گے۔

'اداروں سے دشمنی نہیں، ان کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں'

ایک صحافی کے سوال پر کہ اپوزیشن کے پاس نمبرز کتنے ہیں، سابق صدر نے کہا کہ نمبرز بتا دیتا ہوں، نام بھی دے دوں؟

ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہا کہ ماضی میں ہمارے ارکان غائب ہونے کا ہمیں ہی نقصان ہوا ہے، ہمیں بھی اس کا احساس ہے لیکن یہ باتیں زیادہ اجاگر کرنے کی نہیں۔ ہمیں اس بار امید ہے کہ وہ سب نہیں ہوگا جو ماضی میں ہوا اور یہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگی۔

صحافی عبدالرزاق کھٹی کے سوال پر آصف زرداری نے جواب دیا کہ ہم نے تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا تھا 1989 میں تو صدر غلام اسحاق خان نے اسمبلی تحلیل کر دی۔ اب میں نے کسی صدر کے پاس وہ آپشن نہیں چھوڑا کہ وہ اسمبلی تحلیل کرے۔

ایک سوال پر کہ کیا ایک شخص پر سارا ملبہ ڈال کر باقی سب کو NRO نہیں دیا جا رہا، مولانا نے کہا ہم سب سیاسی لوگ ہیں۔ جن مسائل کی طرف آپ نے اشارہ کیا، وہ موجود ہیں۔ ہم لیکن کسی سے دشمنی نہیں رکھتے۔ یہ نہیں کہ آپ نے یہ غلطی کی ہے تو اب آپ قابلِ گردن زدنی ہیں۔ ہم اداروں کی اصلاح چاہتے ہیں اور انہیں ایسا بنانا چاہتے ہیں کہ یہ صورتحال دوبارہ پیدا ہی نہ ہو۔

اعزاز سید کے سوال پر کہ کیا عدم اعتماد کے بارے میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ جب بلاول اسلام آباد پہنچیں گے تب ہی عدم اعتماد لائی جائے گی، سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ کچھ چیزیں خود بخود ہی ایسے ہو جاتی ہیں۔ کوئی پلان نہیں تھا کہ یہ 23 مارچ کو ہی ہوگا۔

مولانا سے اعزاز سید نے پوچھا کہ آپ کا دھرنا کیوں ختم ہوا تھا؟ مولانا نے کہا کہ ہم نے اپنے اہداف حاصل کر لیے تھے۔

شہباز شریف سے انہوں نے پوچھا کہ ان کے نزدیک وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار کون ہوگا۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ فیصلہ مل کر کیا جائے گا۔