وزیراعظم کا عثمان بزدار کو ہٹانے سے انکار،ترین گروپ نے سخت فیصلے کرنے کا فیصلہ کرلیا

وزیراعظم کا عثمان بزدار کو ہٹانے سے انکار،ترین گروپ نے سخت فیصلے کرنے کا فیصلہ کرلیا
جہانگیر ترین گروپ نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کا آپشن کھلا رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اوردیگر جماعتوں سے رابطوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت اور ترین گروپ کے درمیان مفاہمت کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے سردار عثمان بزدار کو تبدیل کرنے سے انکار کردی گیا ہے، جس کے بعد ترین گروپ سخت فیصلے لینے کو تیار ہوچکا ہے۔

لندن میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی اپوزیشن کی اہم ترین شخصیت سے ملاقات کا امکان ہے، اتحادیوں کے اپوزیشن کے ساتھ سنجیدہ رابطوں کے تناظر میں ترین گروپ تحریک عدم اعتماد میں وزیر اعظم کو ”سرپرائز“ دے سکتا ہے، ترین گروپ پنجاب میں مضبوط انفرادی گروپ کی حیثیت سے مستقبل میں سیاسی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ علیم خان کے حامی ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی رہنماؤں کا اہم اجلاس آئندہ چند روز میں لاہور میں منعقد ہوگا، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے 2 صوبائی وزراء نے علیم خان سے رابطہ کیا ہے اور ان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے رابطے کے بعد آج پھر ترین گروپ کا اجلاس ہورہا ہے، یہ اس گروپ کا مسلسل تیسرے روز اجلاس ہے، آج ہونے والا اجلاس نعمان خان لنگڑیال کی رہائش گاہ پر ہورہا ہے، جس میں میزبان کے علاوہ عون چوہدری، اجمل چیمہ اور طاہر رندھاوا موجود ہیں، اجلاس میں سیاسی صورتحال اورمسلم لیگ ن سے ہونے والےرابطے پربات چیت ہورہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ترین گروپ نیا سیاسی لائحہ عمل تیار کرنے کے متحرک ہوگیا ہے، وزیراعظم کی جانب سے عثمان بزدار کی تبدیلی سے انکار کے بعد سخت لائحہ عمل پر مشاورت جاری ہے، اور جہانگیر ترین اور علیم خان کی لندن ملاقات میں سخت پالیسی تشکیل دینے کا امکان ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اور ترین گروپ میں تعاون کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں اور فاصلے مزید بڑھنے لگے ہیں، ایک طرف پنجاب حکومت بچانے کیلئے ”مشکوک“ ایم پی ایز کی ”پروفائلنگ“ جاری ہے اور سیاسی ہمدردیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے، اور دوسری طرف ترین گروپ نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کا آپشن کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ مائنس عثمان بزدار سے کم پر حکومت سے کوئی بات نہیں ہوگی، جب کہ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں سے رابطوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔