کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، علمائے ہند

کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، علمائے ہند
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے کہ حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائیکورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعی حکم کے برعکس ہے۔ یہ دستور کی دفعہ 51 کے بھی خلاف ہے جو مذہب، نسل، ذات پات اور زبان کی بنیاد پر ہر قسم کی تفریق کے خلاف ہے۔

بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ردعمل کی روشنی میں ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ لازم ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے۔ اِس لحاظ سے حجاب لازمی حکم ہے۔ اگر کوئی اِس حکم پر عمل نہ کرے تو وہ گناہگار ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔

صدر جمعیت علمائے ہند مولانا ارشد مدنی نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا لیکن وہ گنہگار ہو کر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہنا کہ پردہ اسلام کا لازمی جزو نہیں، شرعاً غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ ضروری کا مطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر واجب اور فرض ہے تو ضروری ہے، اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق سکولوں کی حد تک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ سکول کا نہیں کالج کا تھا۔ اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے، رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستور کے آرٹیکل 25 اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستور میں اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا یہ بیان کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں، غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ پردہ اسلام میں واجب ہے اور قرآن اس کا حکم دیتا ہے۔ دارالعلوم نے قومی وملی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔

ممتاز عالم دین اور جمعیت علما ہند کے تعلیمی بورڈ کے صوبائی صدر مولانا مفتی سید عفان منصور پوری نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کہ حجاب اسلام میں لازمی نہیں، نصوص قرآنی کے سراسر خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ غالباً جج صاحبان نے مسلم خواتین کی عمومی بے حجابی کو اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا ہے، اس لیے اب سپریم کورٹ میں جانے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں پردے کا عام ماحول بنانے پر محنت کی جائے۔

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کے ضروری اعمال اور طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرے۔ حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی مذہب کے ضروری مذہبی طریقوں کے بارے میں فیصلہ کرنا عدالتوں کا کام نہیں ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اس فیصلے میں مطلوبہ ضروری تصحیح کرے گی۔امیرِ جماعت نے کہا کہ ہمیں انتہائی تشویش ہے کہ یہ حکم مسلمان خواتین کو تعلیم سے دور کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم ایک اہم قومی ترجیح ہے اور اس کے لئے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے جہاں ہر کوئی اپنے عقیدے یا ضمیر پرسمجھوتہ کیے بغیر اپنی تعلیم کو آگے بڑھا سکے۔