اپوزیشن صرف عمران خان کیساتھ مائنڈ گیم کھیل رہی، ان کے پاس 172 ارکان کی نمبر گیم ہے ہی نہیں

اپوزیشن صرف عمران خان کیساتھ مائنڈ گیم کھیل رہی، ان کے پاس 172 ارکان کی نمبر گیم ہے ہی نہیں
سینئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ میں شروع سے اس موقف کا حامی ہوں کہ 172 کی نمبر گیم اپوزیشن ابھی تک ثابت ہی نہیں کر سکی ہے۔ تاہم کچھ لوگ اس بات کو سرے سے ہی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اتنے ارکان اپوزیشن کے پاس نہیں ہیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن صرف مائنڈ گیم کھیل رہی تھی۔ اس کا جواب عمران خان نے انھیں دیا تھا کہ میں تم سے بہتر یہ کھیل کھیل سکتا ہوں۔ اور جس طرح وزیراعظم یہ مائنڈ گیم کھیل رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ وہ الیکشن کمیشن کے منع کرنے کے باوجود جلسے کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی ساری سیاست یہ تھی کہ پنجاب میں کسی طریقے سے راستہ بنا لیں۔ ان کے ذہن میں تجویز تھی کہ اگر چودھری پرویز الہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ پتا نہیں مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے اس بات کو کن بنیادوں پر تسلیم کیا۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ وہ مڈٹرم الیکشن کے حامی نہیں تھے۔

افتخار احمد نے کہا کہ نواز شریف کا ہمیشہ سے مطالبہ اور سوچ تھی کہ وزیراعظم عمران خان کو پانچ سال پورے کر لینے دیئے جائیں، باقی آئندہ الیکشن میں دیکھیں گے۔ پہلے انہوں نے کسی نہ کسی وجہ سے یہ بات مان لی تھی کہ چلیں پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیں لیکن وہ اس بات سے متفق نہیں کہ ان کے ہوتے اسمبلیاں کو مدت پوری کرنے دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی اب یہی سمجھتی ہے کہ فوری انتخابات کی جانب جایا جائے۔ ان کی جانب سے بار بار بیانات میں کہا جا رہا ہے کہ آئین میں کچھ بنیادی ریفارمز کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد ہم الیکشن میں جائیں گے۔

اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے افتخار احمد نے انکشاف کیا کہ اس سارے عرصے میں اپوزیشن یہ تک ثابت نہیں کر سکی کہ ان کے پاس اپنے 166 ارکان بھی ہیں یا نہیں۔ بس یہ کہا گیا کہ ہمارے پاس ایک خفیہ لسٹ ہے۔ اسے جب میرے ساتھ شیئر کیا گیا تو میں نے اس میں ایک نام پڑھنے کے بعد اس نتیجے کا اعلان کر دیا کہ یہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتایا گیا کہ ہم نے اس کیساتھ بات کر لی ہے، ان کے حلقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو صاحب الیکشن لڑتے ہیں، ہم نے ان کیساتھ سینیٹ کی نشست کا وعدہ کر لیا ہے۔ اس لئے وہ شخص اب بالکل تیار ہیں ہمارے ساتھ آنے کیلئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں کہا جا رہا تھا، اسی نے عمران خان کا بھرپور جلسہ کروایا دیا۔

افتخار احمد نے کہا کہ پھر اس لسٹ میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے اپنے بارے میں خبر نشر ہونے کے بعد ٹیلی وژن چینلز کو نوٹس جاری کروا دیئے کہ میرا نام اس میں کیوں شامل دکھایا گیا۔ اسی سے مجھے شک پڑنا شروع ہو گیا تھا کہ یہ شاید مائنڈ گیم کھیلی جا رہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اگر مائنڈ گیم کھیلی جاتی ہے تو حقیقت کے قریب ترین چالیں چلنا پڑتی ہیں۔ ہر وقت جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ میری معلومات کے مطابق پرویز الٰہی کے انٹرویو کو سن کر بشمول عمران خان پی ٹی آئی قیادت نے بہت بے عزتی محسوس کی۔ پرویز خٹک نے اس بات کی شکایت پرویز الہی سے کی تو ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے ہمیں پانچ سیٹوں والی جماعت کہا ہے اور بلیک میل کرنے کی بات کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مستند خبریں ہیں کہ مسلم لیگ ق اپوزیشن کیساتھ ہی جائے گی۔

پروگرام میں شریک مہمان زاہد حسین کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کا انٹرویو ان کا اعلان تھا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر عندیہ دیا جبکہ پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان کیخلاف اپنی بھڑاس بھی نکالی۔

زاہد حسین نے کہا کہ لیکن اب تک پرویز الٰہی کے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات مکمل نہیں ہوئے، ان کی ابھی تک بات بھی جاری ہے۔ اس بات کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ ابھی تک ایک حد تک ہی بات چیت کا عمل بھی آگے بڑھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ آصف زرداری تو پرویز الٰہی کے مطالبات ماننے کیلئے تیار ہیں لیکن اصل مسئلہ جو رکاوٹ بن رہا ہے وہ ان کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کے مطالبات ہیں۔ ان دونوں چیزوں پر اپوزیشن کا ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔

سینئر تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کسی طور پر بھی اس بات کیلئے تیار نہیں ہوگی کہ پرویز الٰہی کو صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے۔ اپوزیشن میں ان دو مطالبات پر اتفاق رائے نہیں ہو رہا، اسی لئے انھیں انتظار بھی کروایا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اتحادیوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم کیساتھ بھی بات چیت چل رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے کچھ مطالبات ایسے ہیں جنھیں فی الحال پیپلز پارٹی قبول نہیں کرے گی۔