مُنحرف ہونے پر آئینی شِق میں جو کمی رہ گئی، حکومت چاہ رہی وہ خالی جگہ ہم پُر کر دیں: جسٹس عُمر عطا بندیال

مُنحرف ہونے پر آئینی شِق میں جو کمی رہ گئی، حکومت چاہ رہی وہ خالی جگہ ہم پُر کر دیں: جسٹس عُمر عطا بندیال
سُپریم کورٹ کو جانے والے واحد راستے کے خوف سے دن بارہ بجے سُپریم کورٹ کے لیے روانہ ہوا تو ساڑھے بارہ بجے دوپہر سُپریم کورٹ پہنچ چُکا تھا۔ صحافیوں کے لیے مُختص سُپریم کورٹ کے کمرہ میں ساتھی صحافیوں عدیل سرفراز، قیوم صدیقی اور حسیب بھٹی سے کافی دیر گفتگو کی۔

ڈان نیوز کے سینئر نمائندے حسیب بھٹی نے انتہائی مُحبت سے جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کی ریٹائرمنٹ پر بُلائے گئے فُل کورٹ ریفرنس میں معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی برہمی کے تمام نوٹس میرے ساتھ شیئر کیے۔ نوٹس پڑھنے پر اور آج ٹی وی کے نمائندے عدیل سرفراز سے سُنے تو معلوم ہوا معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے آج بار نمائندوں کو براہِ راست اور سُپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کافی باتیں بالواسطہ سُنا دیں۔

چیف جسٹس نے بار کونسلز کی تقاریر کے نوٹس لیے اور پھر اپنے خطاب میں غیر معمولی طور پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ججز پر اُنگلیاں اُٹھانا بند کریں، جس بندے پر اعتراض ہے نام لیں اور میرا دفتر سب کے لیے کُھلا ہے، میرے پاس آئیں، گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ سُپریم کورٹ رولز کی شق گیارہ کے تحت بینچ بنانا اُن کا اختیار ہے اور بیس سال سے یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ ججز پر الزامات لگانا انتہائی نامُناسب ہے۔ آپ اپنے منصب کا خیال کریں، یوں یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر آکر آپ اپنے عہدے کی وُقعت گھٹا رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی کو مُجھ سے تکلیف ہے تو میرے چیمبر میں آکر بات کرے، رات نو بجے تک کام کرتا ہوں۔ معزز چیف جسٹس نے وزیرِاعظم عمران خان کے دفتر سے لائے گئے رجسٹرار سُپریم کورٹ کا بھی دفاع کرتے ہوئے اُنہیں بہترین افسر قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ قانون بھی جانتے ہیں جبکہ انتظامی کام بھی کر لیتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں رجسٹرار کے انتظامی کام بھی میں کروں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز خود پر لگے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز کی ذات پر نہیں فیصلوں پر تنقید کریں۔ یہ سب سُننے اور پڑھنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کہتے ہیں کہ اُن کے دروازے کُھلے ہیں سب کیلیے تو برائے مہربانی سب سے سینئر سُپریم کورٹ جج معزز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بھی مُشاورت کر لیا کریں، اِس کا تو قانون بھی کہتا ہے ورنہ پھر چہ مگوئیاں تو ہوں گی۔

بہرحال ایک بج کر پچیس منٹ پر کورٹ روم نمبر ون کی طرف چل دیا کہ صدارتی ریفرنس کی دوسری سماعت سُن لیں۔ آج کمرہِ عدالت میں رش کم تھا۔ دائیں طرف جا کر اپنے سینئر مطیع اللہ جان کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ کمرہِ عدالت میں پی ٹی آئی کی رہنما ملیکا بُخاری، ن لیگی ایم این ایز رانا ثناء اللہ، شزا فاطمہ خواجہ، رومینہ خورشید عالم جبکہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور ایم این اے قادر مندوخیل بھی کمرہِ عدالت میں موجود تھے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے پاس جا کر پوچھا کہ سر حکومت کی ترجیح ووٹنگ سے قبل صدارتی ریفرنس پر سُپریم کورٹ سے رائے ہے یا آپ کو فرق نہیں پڑتا رائے بعد میں بھی آ جائے تو؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ ہماری ترجیح ووٹنگ سے قبل رائے حاصل کرنا ہے اور اِسی لیے میں جلد سے جلد اپنے دلائل مُکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ کوشش کریں گے آج اپنے زیادہ سے زیادہ دلائل دے دیں اور اگلی سماعت پر پہلے ایک گھنٹے میں اپنے دلائل مُکمل کرکے دوسرے فریقین کو دلائل کا موقع دیں۔

ایک بج کر چالیس منٹ پر کورٹ آگئی کی آواز گونجی تو معزز جسٹس جمال خان مندوخیل سب سے پہلے اور باقی چار معزز جج صاحبان اُن کے بعد کمرہِ عدالت میں داخل ہو کر نشستوں پر بیٹھ گئے۔ بنچ کے سربراہ چیف جسٹس عُمر عطا بندیال درمیان میں جبکہ اُن کے دائیں ہاتھ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مُنیب اختر اور بائیں ہاتھ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بیٹھے تھے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کُچھ اراکین براہِ راست مُنتخب ہو کر آتے ہیں جبکہ ہر سیاسی جماعت کو اپنی عددی نمائندگی کے لحاظ سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی ملتی ہیں جِن پر وہ اپنے نمائندے نامزد کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ مخصوص نشستوں پر حکمران جماعت پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد ایم این ایز بھی مُنحرف ہو کر سندھ ہائوس میں بیٹھے ہیں۔

معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی اعتماد پر قائم ہوتی ہے اور اگر آپ مُنحرف ہو جائیں تو آپ خیانت کے مُرتکب ہوتے ہیں جِس کو اللہ نے قُرآن میں سخت ناپسند کیا ہے۔

بنچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ جب کوئی پارٹی کا ممبر بنتا ہے تو کیا وہ کسی ایسی دستاویز پر دستخط کرتا ہے کہ وہ پارٹی کا وفادار رہے گا اور ووٹ پارٹی کی ہدایت پر ہی استعمال کرے گا تاکہ اِس بات کا تعین ہو سکے کہ اُس نے انحراف کرکے خیانت کی ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی کا رُکن بنتے وقت اور ٹکٹ کے لیے درخواست دیتے وقت آپ فارم بھرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اُس فارم میں لکھا ہوتا ہے کہ ووٹ پارٹی سربراہ کی مرضی سے استعمال کروں گا تاکہ اگر خیانت ثابت کرنی ہے تو پہلے اعتماد کا رشتہ ثابت کرنا ہوگا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اُٹھایا کہ اگر پارٹی سربراہ پارٹی کے آئین یا پاکستان کے آئین سے انحراف کرے تو بھی پارٹی سربراہ کے ساتھ وفادار رہنا ضروری ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے مزید پوچھا کہ یہ بھی دکھائیں کہ آئین سے انحراف کرنے والے پارٹی قائد کے ساتھ رہنے کی پابندی کے بارے میں اگر کُچھ لکھا ہے تو وہ بتائیں۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ پارٹی کے آئین میں واضح لکھا ہے جو فارم بھرے گا صرف اُس کو ٹکٹ ملے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ممبر کا نام پارٹی کے نشان کے سامنے لکھا ہوتا اور ووٹر اُس کو پارٹی نشان کی وجہ سے ووٹ دیتے تو اگر وہ پارٹی لائن سے ہٹ جائے تو انحراف کرے گا۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس اعجاز الاحسن سے اتفاق کرتے ہوئے دلیل دی کہ آرٹیکل 63‪-A بھی اختلاف کا حق دیتا ہے لیکن وہ اختلاف آپ کو پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی میں یا کابینہ میں کرنا ہوتا ہے اور اگر اکثریت مُتفق ہو تو آپ کو اُس پر ووٹ کرنا ہوتا ہے یا پھر آپ مُستعفی ہو جائیں۔

اٹارنی جنرل نے کمرہِ عدالت میں موجود سینیٹر رضا ربانی کا حوالہ دے کر کہا کہ انہوں نے بھی پارٹی فوجی عدالتوں پر اختلاف کیا لیکن آخر میں ووٹ کو پارٹی کی امانت قرار دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اگر کوئی پارٹی رُکنیت چھوڑنا چاہے تو؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ استعفیٰ دے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اسعتفیٰ دینے پر اُس پر آرٹیکل 63‪-A  نہیں لگے گا؟

اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ استعفیٰ پر زور کیوں دے رہے؟ اٹارنی جنرل بولے کیونکہ آپ ایک تعلق میں تو پہلے اُس تعلق کو ختم کریں پھر جو مرضی کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال پوچھا کہ آپ ممبر کو آذادی اظہارِ رائے سے روک رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آذادیِ اظہار کی اجازت ہے لیکن آذادی اظہارِ رائے بے لگام نہیں ہوتا اگر آپ اظہارِ رائے آذادی سے ضرور کریں لیکن میری گاڑی میں بیٹھ کر نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آپ آئین نے صرف چار صورتوں پر اختلاف کی اجازت نہیں دی اور آرٹیکل 63‪-A صرف استحکام کے لیے رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر اِس کو خیانت نہ بھی کہیں تو کم از کم دھوکہ تو کہہ سکتے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اٹارنی جنرل سے مُکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تو انحراف نہیں فوا لیکن آپ صرف خدش کی بُنیاد پر سُپریم کورٹ آگئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹی وی پر وڈیو بیانات موجود ہیں۔ جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے ریمارکس دئیے کہ یہاں آئین میں انحراف پر شِق موجود ہے جب کوئی انحراف کرے تو تب آئیں۔

اٹارنی جنرل کے جواب سے پہلے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دے دیے کہ اگر آئین میں کسی شِق کے اطلاق کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے تو سُپریم کورٹ کا فرض ہے کہ وہ اُسکی تشریح کرے۔ اٹارنی جنرل نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس سے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اِس وقت پوری قوم کی نظریں لگی ہیں کہ مُنحرف ہونے والے اراکینِ اسمبلی کے ساتھ کیا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہم صرف آئین کے تحت رائے دینے بیٹھے ہیں۔

معزز چیف جسٹس نے اِس موقع پر آج کی سماعت کے سب سے اہم آبزرویشن دی کہ آرٹیکل 63‪-A میں انحراف پر صرف اسمبل کی رُکنیت ختم ہونے کا لِکھا لیکن ایسا کُچھ نہیں لِکھا کہ آپ نیا الیکشن لڑ کر دوبارہ اسمبلی کے رُکن مُنتخب نہیں ہوسکتے اور بہتر ہوتا اگر پارلیمنٹ یہ کام خود قانون سازی سے طے کرتی کہ کیا اِس پر نااہلی ہوگی اور اگر ہوگی تو کتنی مُدت کی ہوگی۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ صدارتی ریفرنس میں یہی سوال عدالت کے سامنے ہے کہ وہ تشریح کردے کہ نااہلی ہوگی یا دوبارہ اسمبلی کا رُکن بن سکتے ہیں پارٹی سے مُنحرف ہونے والے؟ اب تو معزز چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو دیوار سے لگا دیا اور آبزرویشن دی کہ آپ چاہ رہے قانون سازی کے دوران جو کمی رہ گئی ہے وہ خالی جگہیں عدالت پُر کردے۔ پانچ رُکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال اُٹھایا کہ آپ کو کِس چیز کا ڈر تھا جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم کررہے تھے تو وہاں بھی یہ سادہ اکثریت سے شامل کروا سکتے تھے کہ جو رُکن اسمبلی پارٹی لائن سے انحراف کرکے ووٹ دے گا وہ اتنی مُدت کے لیے نااہل ہوسکتا ہے۔

معزز جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ اگر آپ انحراف اور اخلاقیات کو کیسے آئین کی شقوں سے ربط میں دکھائیں گے؟ اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ وہ اپنے دلائل ختم ہونے سے پہلے یہ ربط دکھائیں لیکن ابھی اُنہیں اپنے اِس نُکتے پر ہی فوکس کرنے دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ آئین ایک اسکیم کا نام ہے آپ کسی ایک شِق کو علیحدہ نہیں پڑھ سکتے۔

جسٹس مُنیب اختر نے سوال پوچھا کہ اگر کوئی رُکن اسمبلی پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ کرکے مُستعفی ہو جائے تو پھر بھی اُس پر آرٹیکل 63‪-A کا اطلاق ہوگا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بھارتی سُپریم کورٹ نے ایک کیس میں یہ طے کردیا تھا کہ چاہے آپ نے استعفیٰ دے دیا لیکن آپ مُنحرف ہی شُمار ہوں گے کیونکہ آپ نے ووٹ تو پارٹی لائن سے ہٹ کر دے دیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا باقی تمام سیاسی جماعتیں آپ کی آرٹیکل 63‪-A کی تشریح کے ساتھ مُتفق ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کم از کم سب سیاسی جماعتیں اِس بات پر مُتفق ہیں کہ صدر سُپریم کورٹ سے ریفرنس بھیج کر رائے مانگ سکتے ہیں۔

چیف جسٹس عُمر عطا بندیال نے ایک بار پھر حکومت کی اُمیدوں پر پانی پھیرنے والے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جو کام ایک عام ایکٹ بنا کر کرسکتے تھے الیکشن ایکٹ کے ذریعے کرسکتے تھے وہ خود کیا نہیں تو ہم کیسے رُکنِ اسمبلی کی نشست خالی کروانے سے آگے جاسکتے ہیں؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62‪-1F میں بھی نااہلی کی مُدت نہیں لکھی تھی لیکن پھر بھی سُپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کا وہاں طے کردیا تھا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ وہ رائے نہیں مانگی گئی تھی بلکہ عدالت نے ایک کیس میں فیصلہ دیا تھا اور جب کوئی فیصلہ دے دیا جائے تو قانون بن جاتا اور پھر تمام عدالتیں اطلاق کے لیے مُتحرک ہو جاتی ہیں۔

اِس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے معنی خیز ریمارکس دئیے جِس سے ظاہر ہوتا تھا کہ معزز لارجر بینچ کو بخوبی احساس ہے کہ حکومت سُپریم کورٹ کے ججز کا کیا سیاسی استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے مُسکراتے ہوئے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ چاہ رہے ہیں کہ ہم رائے دے دیں تاکہ آپ کے مُنحرف اراکین کو ووٹ ڈالتے وقت معلوم ہو کہ پارٹی سے انحراف کرنے کے کیا نتائج ہوں گے۔ اٹارنی جنرل نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جی ہاں کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ دراصل آرٹیکل 63‪-A  یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی رُکن کتنا معزز ہے اور اُس نے پارٹی سے انحراف کیوں کیا۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63‪-A میں پارٹی لائن سے انحراف کی وجہ کے بار ے میں کُچھ درج نہیں ہے اور نہ ہی درج ہے کہ کسی نے پیسے لیے تھے یا نہیں۔ اٹارنی جنرل کا جواب تھا کہ آرٹیکل 63‪-A صرف یہ دیکھتا ہے کہ اگر آپ پارٹی لائن سے مُنحرف ہوئے ہیں تو آپ کی نشست خالی ہوجائے گی۔ اِس موقع پر چیف جساس عُمر عطا بندیال نے ریفرنس کی سماعت سوموار دن ایک بجے تک مُلتوی کردی۔