'عمران خان فارغ ہو جائیں، چین امریکا سے بھی زیادہ خواہش مند'

'عمران خان فارغ ہو جائیں، چین امریکا سے بھی زیادہ خواہش مند'
شاہد میتلا نے کہا ہے کہ خارجہ سطح پر جتنی بھی ناکامیاں ہوئیں اس کی براہ راست ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ سی پیک کو رول بیک کرکے چین اور اس کی اعلیٰ قیادت کو ناراض کر دیا۔ چین امریکا سے بھی زیادہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ عمران خان فارغ ہو جائیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی سیاسی صورتحال، خفیہ دستاویزات، امریکی دھمکی اور تحریک عدم اعتماد سمیت دیگر موضوعات پر بات کرتے ہوئے شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو پیغام بھیجا ہے کہ میں استعفیٰ دینے کیلئے تیار ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جاتی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ پیغام ایک اہم شخصیت نے مولانا فضل الرحمان، شہباز شریف اور زرداری صاحب کو کھانے پر مدعو کرکے دیا۔ لیکن اپوزیشن رہنمائوں نے اس درخواست یا این آر او کر یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے پاس تو استعفے کا ابھی بھی آپشن ہے۔ وہ تحریک عدم اعتماد واپس لئے بغیر بھی اس آپشن پر عمل کر سکتے ہیں۔ ہم اس شخص پر کسی قسم کا اعتبار نہیں کر سکتے۔

پی ٹی آئی حکومت کی خارجہ سطح پر ناکامیوں پر بات کرتے ہوئے شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ کشمیر عمران خان کی حکومت میں گیا۔ ابھینندن کو 24 گھنٹے میں چھوڑنا پڑا۔ ہمارے وزیراعظم نریندر مودی اور جوبائیڈن کو فون کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن انہوں نے بات ہی نہیں سنی۔

ان کا کہنا تھا کہ خارجہ سطح پر جتنی بھی ناکامیاں ہوئیں اس کی براہ راست ذمہ داری عمران خان پر آتی ہے۔ پاک چائینہ اقتصادی راہداری ( سی پیک) کو رول بیک کرکے چین اور اس کی اعلیٰ قیادت کو ناراض کر دیا گیا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چین امریکا سے بھی زیادہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ عمران خان فارغ ہو جائیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کسی ملک کیساتھ ورکنگ ریلیشن شپ رہنے نہیں دیا۔ سی پیک کے تمام معاہدے اٹھا کر آئی ایم ایف کو دیدیے گئے جو مسلم لیگ ن نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکا کو بھی زچ کرنے کی کوشش اس لئے کی جا رہی ہے کہ جوبائیڈن نے کال کیوں نہیں کی۔

پروگرام کے دوران شریک مہمان عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک ایسے سفارشی استاد کی طرح ہیں جنھیں نوکری ان کے تعلق کی بنا پر ملی ہو اور جس نے صرف ایک ہی لیکچر تیار کیا ہو۔ 25 سال سے وہ قوم کو بتا رہے ہیں کہ میں سیاست میں کیوں آیا۔ مجھے امید تھی کہ وہ آج کہیں گے کہ میں سیاست سے باہر کیوں جا رہا ہوں۔

عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان کو کہنا چاہیے تھا کہ مجھے ساڑھے تین سال کی حکومت ملی، اس میں میں وہ نہیں کر سکا جو میں کہتا تھا کہ کروں گا۔ حکومت کی پوری طاقت ان کو دینے کے بعد بھی ملک وقوم کیلئے کچھ نہیں کر سکے۔ عمران خان کو تو وہ چیلنجز ہی نہیں تھے جو ماضی میں وزرائے اعظم کو برداشت کرنے پڑے۔ ان کو تو پلیٹ میں اقتدار دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی تقریر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ انہوں نے امریکا پر الزام بھی لگا دیا۔ اس کے بعد اب کوئی راز راز نہیں رہا، اس لئے جو بھی خفیہ دستاویزات ہیں انھیں ڈی کلاسیفائیڈ کر دینا چاہیے۔

رضا رومی کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی پالیسی پر بحث اور اس پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن وہ پاکستان کی ایک ریاستی پالیسی تھی جسے ان حالات کے مطابق اپنایا گیا تھا۔ یہ سب مفروضے ہیں کہ ایسا ہو جاتا تو ویسا ہو جاتا۔

سینئر تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا تھا کہ عمران خان خط، سازش، ڈرون حملوں اور امریکا کیخلاف بیانیے کا بار بار ذکر کر رہے ہیں جو صرف اپنی نالائقی سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔ آج چار سال اقتدار میں رہنے کے بعد ان کے پاس کوئی ایک چیز نہیں جس کو دکھا کر وہ عوام کے پاس جائیں کہ ہم نے آپ کیلئے یہ کام کئے۔ ان کے پاس عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ موازنے سے بڑا ظلم، ناانصافی اور تاریخ کو مسخ کرنے کا کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ بھٹو نے پاکستان کو آئین دیا، تمام تر خطرات کے باوجود پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا۔ 1974 میں ایک متوازی بلاک بنایا اور کھل کر پاکستان کی سمت ہی بدل دی تھی۔