پنجاب میں اقتدار کی ریشہ دوانیاں (پارٹ 2)

پنجاب میں اقتدار کی ریشہ دوانیاں (پارٹ 2)
وفاق میں پی ٹی آئی کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولتے ہی پنجاب میں اقتدار کی ریشہ دوانیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ آج مورخہ 2 اپریل 2022 کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے پر آخرکار گورنر پنجاب چوہدری سرور کو راضی کر لیا گیا ہے۔

عثمان بزدار کا استعفی قبول ہونے کے بعد اب ایوان نے نئے وزیراعلٰی کا انتخاب کرنا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے حمزہ شہباز اور حکومت کی طرف سے چوہدری پرویز الہی آخرکار خم ٹھونک کر میدان میں آ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی جماعت کے اولین گروپ المعروف چھینہ گروپ کے ساتھ چوہدری پرویز الہی کے معاملات طے پا چکے ہیں حالانکہ گزشتہ روز چوہدری پرویز الہی کی اس گروپ کے ساتھ ملاقات تقریبا ناکام رہی تھی۔ دراصل چھینہ گروپ نے پہلے دن سے ہی حلف اٹھایا ہوا ہے کہ گروپ کے صرف اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اسی وجہ سے گزشتہ روز اس گروپ نے چوہدری پرویز الہی کیلئے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ ایک مقدمہ قتل میں گلریز افضل چن کی مخالفت کرنے کے معاملہ پر اس خاندان کو مطمئن کریں اور اس کے بعد ہی چوہدری پرویز الہی کی حمایت کرنے پر بات شروع کی جا سکتی ہے جبکہ دوسری طرف چن فیملی کا یہ اعلان تھا کہ وہ اسمبلی سے استعفی تو دے سکتے ہیں لیکن چوہدری پرویز الہی سے صلح نہیں ہو سکتی۔

لیکن اگلے ہی دن حالات نے اچانک پلٹا اس وقت کھایا جب اس گروپ کو معلوم ہوا کہ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کے خلاف اکثریتی گروپ بنا لینے کے باوجود انہیں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے بلکہ تا حیات نااہلی کی افواہیں بھی زبان زد عام ہیں۔ یوں تو وفاق میں چوہدری طارق بشیر چیمہ اور سالک حسین کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد تحریک میں ان کی مخالفت میں جانے کی شنید ہے وہیں وہ پنجاب میں چوہدری پرویز الہی کو وزیراعلٰی پنجاب بنانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔

اسی طرح پنجاب اسمبلی کے سیکرٹری محمد خان بھٹی بھی سرکاری ملازم ہونے کے باوجود مختلف اراکین پنجاب اسمبلی کو واٹس ایپ کالز اور اپنے دفتر میں مل کر چوہدری پرویز الہی کو ووٹ دینے کیلئے قائل کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ چوہدری پرویز الہی کی اس انتخابی مہم کو چوہدری مونس الہی اور سیکرٹری اسمبلی محمد خان بھٹی ہی دیکھ رہے ہیں۔کامیابی کے دعوے تو دونوں اطراف سے کیے جارہے ہیں لیکن چھینہ گروپ کے چوہدری پرویز الہی کے کیمپ میں چلے جانا ایک بڑی نفسیاتی کامیابی ہے۔

اس کے علاوہ ن لیگ کے چھ ارکان بھی چوہدری پرویز الہی کی جیب میں ڈال دئے گئے ہیں۔یہ بھی افواہ ہے کہ بعض اراکین اسمبلی کو رقم کے عوض وفاداری بدلنے کی بھی آفر کی گئی ہے اور اس کام کے نگران بھی چوہدری پرویز الہی کے سرکاری دست راست ہی بتائے جاتے ہیں۔شاید اسی وجہ سے گزشتہ رات کے کھانے میں چوہدری صاحبان کافی مطمئن نظر آئے۔ ن لیگ بھی خوب محنت کئے ہوئے ہیں۔ اراکین اسمبلی کے لئے ن لیگ میں کشش کا سب سے بڑا سبب مستقبل کے انتخابات میں اس کا ٹکٹ ہے۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق انہیں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر186کی مطلوبہ تعداد میسر ہے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ کو علیم خان گروپ، ترین گروپ کے ایک حصہ ،پیپلزپارٹی اور 7 پی ٹی آئی ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اس انتخاب کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین ایوان میں نہ بھی حاضر ہوں تو ایوان میں موجود اراکین ہی نئے وزیراعلٰی کا انتخاب کریں گے۔

اسی خطرے کے پیش نظر گجرات کے چوہدری ہر رکن اسمبلی کے گھر ہر طرح کی پیشکش کے ساتھ پہنچ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اکثر منحرف اراکین کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران کی وضعداری صرف اپنے مفاد کیلئے ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ چوہدری پرویز الہی کے سابقہ رویے کے پیش نظر انہیں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں۔ کچھ اراکین اسمبلی نے پیپلزپارٹی کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے اور پارٹی کی لیڈر شپ سے ملاقات اور یقین دہانیوں کے باوجود پیپلزپارٹی پراسرار طور پر ان اراکین سے رابطہ کرنے سے گریزاں ہے۔