انصاف کیلئے ٹھوکریں کھاتی ناظم جوکھیو کی بیوہ کی فریاد۔۔۔

انصاف کیلئے ٹھوکریں کھاتی ناظم جوکھیو کی بیوہ کی فریاد۔۔۔
غریب اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ابھی بھی انصاف کی راہ میں کیسے در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے اور انصاف ملنے کے لئے کتنا ناامید ہے اس کا اندازہ پچھلے دنوں مقتول ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو کے بیان سے ہوا۔ شیریں جوکھیو نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ اپنے خاوند کے کیس میں ملوث تمام قاتلوں کو معاف کر دے گی اور اس کی بنیادی وجہ اس نے مجبوری اور بچوں کی حفاظت بتائی۔ اس نے مزید کہا کہ وہ یہ سب پیسوں کے لئے نہیں کر رہی بلکہ صرف اس وجہ سے کر رہی ہے کہ اس لڑائ میں اسے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔اس نے کہا کہ یہ معاملہ وہ اللہ پر چھوڑ چکی ہے اور پاکستان میں انصاف نہیں مل سکتا۔

اس کیس کا پس منظر دیکھیں تو اس میں وہی روائتی طاقتور اور کمزور کی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ ناظم جوکھیو ایک 27 برس کا نوجوان تھا جو ملیر کراچی کے نواحی علاقہ کا رہائشی تھا اور شوقیہ طور پر سوشل میڈیا پر صحافت سے متعلقہ ذمہ داریاں بھی ادا کرتا تھا۔ نومبر 2021 میں اس کی لاش پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے جام اویس کے ملیر فارم ہاؤس سے ملی۔ اس کے خاندان کی طرف سے بالخصوص اس کے بھائی کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ ناظم نے کچھ غیر ملکی عربی شکاریوں کو اپنے گاؤں کی حدود سے ممنوعہ پرندے تلور کے شکار کرنے سے منع کیا اور ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی۔

اس کی ویڈیو اپلوڈ کرنے کے بعد اسے مقامی پی پی پی ایم پی اے جام اویس کی جانب سے ویڈیو ضائع کرنے کا کہا گیا اور ان کے فارم ہاؤس پر جا کر ان کی بات سننے کا کہا گیا۔ اس سب کی وجہ یہ تھی کہ وہ عربی مقامی ایم پی اے اور اس کے ایم این اے بھائی جام عبدالکریم کے مہمان تھے۔ ناظم کے بھائی کے بقول جب وہ رات کو فارم ہاؤس پہنچے تو جام اویس نے اپنے باڈی گارڈز کی مدد سے ناظم پر تشدد کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران وہ اپنے بھائی کے لئے مسلسل آہ و پکار کرتا رہا کہ اسے معاف کر دیا جاۓ مگر اس کی کسی نے نہ سنی۔ اسے رات کے تین بجے یہ کہا گیا کہ وہ اکیلا واپس چلا جائے اورصبح واپس آئے پھر اس کے بھائی کا معاملہ نمٹایا جائے گا۔

جب وہ صبح فارم ہاؤس پر پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ اس کا بھائی ناظم مر چکا ہے اور اسے لاش تک فراہم نہیں کی گئی۔ اس وقوعہ کے بعد جوکھیو قبیلہ نے ملیر کی شاہراہ پر دھرنا دے دیا اور لاش ملنے کے بعد اس کو دفنا کر دوبارہ دھرنا دیا اور قاتلوں کی گرفتاری تک اٹھنے سے انکار کر دیا۔ بالآخر دھرنے کا خاتمہ رات کو جام اویس کا تھانے میں گرفتاری پیش کرنے کے بعد ختم ہوا۔پولیس نے گرفتار ایم پی اے اور اس کے چار ساتھیوں پر مقدمہ درج کر دیا اور مقتول کی بیوہ کی درخواست پر جام یوسف کے بھائی ایم این اے جام عبدالکریم کو بھی نامزد ملزم کر دیا۔ اس دوران جام عبدالکریم روپوش ہو کر دوبئی جا پہنچا۔

مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بھی جسم پر تشدد اور زخموں کے نشانات موجود تھے جس کی وجہ سے مقتول کی پرتشدد موت پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ ناظم کے بھائی کے مطابق ناظم نے عربی شکاریوں کو منع کر کے مددگار پولیس 15 پر بھی کال کی مگر وہ کال چونکہ کسی طاقتور کی طرف سے نہیں تھی اس لئے پولیس نہ پہنچ سکی۔ مفرور ملزم پی پی پی ایم این اے عبدالکریم چند دن قبل سندھ ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت قبل از گرفتاری لینے کے بعد دبئی سے کراچی واپس پہنچا تاکہ وہ تحریک عدم اعتماد میں اپنی جماعت کی طرف سے عمران خان کے خلاف ووٹ ڈال سکے وہاں پی پی پی کے اعلی عہدیداروں اور صوبائی سیاست دانوں کی طرف سے اس کاائیرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا گیا گویا وہ کوئی محاذ فتح کر کے واپس لوٹ رہا ہے۔

اس کا والہانہ استقبال ائیرپورٹ تو اپنا مفاد حاصل کرنے والے سیاست دانوں نےکیا جب کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے دفتر میں اس کو باقاعدہ سندھی اجرک پہنا کر عزت بخشی گئی جس سے سندھ حکومت کا اعلامیہ ظاہر ہو گیا کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر قتل کے ملزم کو کیسے عزت دے رہی ہے اور درپردہ یہ صوبائ عدالتوں اور مقتول کے گھر والوں کے لیۓ بھی پیغام ہے کہ تم سب سے بھی نمٹ لیں گے۔

اس معاملے پر کئی صحافیوں نے اپنی آواز اٹھائی ہو گی مگر جن صحافیوں کو میں جانتا ہوں ان میں سب سے زیادہ آواز ڈان چینل سے وابستہ صحافی مبشر زیدی نے اٹھائی ہے۔ اس معاملے پر دیگر بااثر افراد اور سب سے بڑھ کر پی پی پی کے چئیرمین بلاول زرداری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیۓ۔ ان کو ایسے افراد کی پشت پناہی کر کے وقتی طور پر ذاتی مفاد حاصل کرنے کی بجاۓ ان مظلوموں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیۓ جن کی وجہ سے ان کی جماعت برسر اقتدار آتی ہے۔انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیۓ کہ کسی جرم میں ملوث بااثر افراد کی بجائے مظلوم اور بے بس جمہور ہی ان کی جمہوریت کی اصل روح ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ عدالتیں بھی قاتلوں کو سزا دے کر مظلوموں کو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا احساس دلائیں گی۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔