'بروز اتوار، مورخہ 10 اپریل وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کا آخری دن، تقریر میں خود واضح اشارہ دیدیا'

'بروز اتوار، مورخہ 10 اپریل وزیراعظم عمران خان کے اقتدار کا آخری دن، تقریر میں خود واضح اشارہ دیدیا'
سینئر تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تقریر ان کا آخری گیت تھا جو انہوں نے قوم کے سامنے گایا۔ وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ بروز اتوار مورخہ 10 اپریل ان کے اقتدار کا آخری دن ہوگا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ورکرز کو احتجاج کی کال دی اور سڑکوں پر نکلنے کیلئے کہا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں وزیراعظم عمران خان کی تقریر پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات حتمی طور پر طے ہو گئی ہے کہ ان کے پاس جادوئی ٹوپی میں نیا کچھ دکھانے کیلئے نہیں بچا۔ تاہم اگر کوئی ایسی چیز انہوں نے نکالنے کی کوشش کی تو انھیں اب وہ بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔

ضیغم خان نے کہا کہ عمران خان کا پرانا بیانیہ تھا کہ پاکستان کی تباہی کی وجہ اشرافیہ کی بے ایمانی اور کرپشن ہے۔ جیسے ہی ایک نیک خلیفہ آئے گا تو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے دن پھر جائیں گے۔ 90 دن میں پورے ملک سے بدعنوانی ختم ہوگی۔ 200 بلین ڈالرز پاکستان میں آئیں گے۔ آٹھ بلین ڈالرز جو ہر سال ملک سے باہر جاتے ہیں، وہ رک جائیں گے۔ لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا اور ان کا یہ بیانیہ بری طرح سے پٹ گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب انھیں اس وجہ سے بڑے عرصے سے ایک نئے بیانیے کی اشد ضرورت تھی۔ اس لئے اب وہ سیاسی شہید بننے کی کوششیں کرنے لگے ہیں۔ پہلے تو وہ کہتے تھے کہ تین چوہے ان کا شکار کرنے نکلے ہیں لیکن اب اس بات کو تبدیل کرکے اب انہوں نے اعلان شروع کر دیا ہے کہ جنگل کا سب بڑا شیر ان کا شکار کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جب سے انہوں نے امریکا مخالف بیانیہ بنانا شروع کیا تو ان پر یہ چیز واضح ہوگئی کہ اب ان کے دن گنے جا چکے ہیں کیونکہ حکومت میں رہتے ہوئے کوئی حکمران اتنا پاگل نہیں ہوسکتا کہ وہ اتنی بنیادی چیز کو نظر انداز کردے۔

ضیغم خان نے کہا کہ ان کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کو گالیاں دے کر کوئی ملک تنہا نہیں چل سکتا۔ مشہور مقولہ ہے کہ جب بندریا کے پائوں جلنے لگتے ہیں تو وہ اپنے ہی بچوں کو پائوں کے نیچے لے لیتی ہے۔ لیکن انھیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان ماں ہے۔ انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر جس طرح قومی مفادات کا حشر کرنا شروع کر دیا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ وزیراعظم کے عہدے پر رہتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی کو وہ دائو پر لگا رہے ہیں، جو بہت خطرناک ہے۔

پروگرام کے دوران شریک گفتگو نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ میں وزیراعظم کی تقریر سے پہلے سوچ رہی تھی کہ ان کا نیا سرپرائز کیا ہوگا؟ لیکن سن کر مایوسی ہوئی کہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ اس میں صرف انہوں نے جس طرح سے بھارت اور اس کی قوم کی تعریفیں کیں اور انھیں خوددار قرار دیا، اگر ایسا کوئی اور وزیراعظم کہتا تو اس کیخلاف غداری کے سرٹیفکیٹس دیئے جا رہے ہوتے۔

نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اگر 7 مارچ کو غیر ملکی مراسلہ عمران خان کو موصول یو گیا تھا تو اس کے بعد وہ فوری سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے۔ اگر وہ کمیشن نہیں بنا سکتے تھے تو انھیں خود عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے تھا۔ لیکن آج عدالت عظمیٰ سے گلہ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے کیوں اس معاملے کو نہیں دیکھا اور اس پر توجہ نہیں دی۔ اگر اس بات پر گلہ کسی سے بنتا ہے تو وہ خود عمران خان ہیں، انھیں یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا تاکہ پھر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج انہوں نے جس طرح عوام کو باہر نکلنے کا کہا تو مجھے یاد آیا کہ کشمیر کے معاملے پر بھی انہوں نے ہر جمعہ کے روز احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ آج ہی انہوں نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جس میں سب کو پتا ہے کتنے لوگ آئے تھے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اتوار کے روز لوگ ان کی کال پر باہر نکلیں گے؟

عامر غوری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ایک بات اپنے فالورز پر واضح کر دی ہے کہ وہ اداروں پر یقین نہیں رکھتے۔ باہر بیٹھے لوگ سوچتے ہونگے کہ ایک جوہری ملک کا وزیراعظم صرف ایک پیپر کو بنیاد بنا کر پاکستان کے مغربی ممالک کیساتھ تعلقات کا بیڑہ غرق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔