'سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے قوانین کو استعمال کرکے مال بنایا'

'سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے قوانین کو استعمال کرکے مال بنایا'
ضیغم خان نے کہا ہے کہ یہ بہت شرمندگی کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے توشہ خانہ کے قوانین کو استعمال کرکے مال بنایا لیکن فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ گھڑی بیچ دی تو کیا ہوگا، یہ کوئی ایسی بات ہی نہیں ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خبریں ہیں کہ عمران خان کو تحفے میں دی گئی گھڑی واپس سعودی عرب کے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کے پاس پہنچ چکی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک وقوم کیلئے کتنی شرمندگی کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو کوئی تحفہ دیا گیا تھا تو اس کی عزت افزائی یہ تھی کہ اسے میوزیم میں رکھا جاتا جبکہ اسی مالیت کا ایک تحفہ خصوصی طور پر بنوا کر سعودی پرنس کو واپس کرنا چاہیے تھا۔ بجائے اس کے کہ اتنی بڑی مالیت کی چیز وزیراعظم صاحب صرف 10 لاکھ روپے میں خریدیں اور مارکیٹ میں جا کر بیچ دیں۔ اس کے بعد دفتر خارجہ دو لاکھ کا گھٹیا ترین ایک قالین خریدیں اور دورہ سعودی عرب کے دوران وہاں کے بادشاہ کو دیدیں۔ یہ کام جو کیا گیا، اس ملک کیلئے ذلت کا مقام ہے۔

پروگرام میں شریک گفتگو احمد بلال محبوب نے ملک کی سیاسی صورتحال پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لئے گئے ہیں۔ تاہم اگر کوئی رکن کہے کہ مجھ سے جبراً استعفیٰ لیا گیا تھا تو اس صورت میں یہ متنازع ہو جائے گا۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ اب جب یہ استعفے الیکشن کمیشن کے پاس جائیں گے تو انھیں ڈی نوٹیفائی کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد 60 روز کے اندر اندر ان تمام نشستوں پر انتخابات کرانا لازمی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی زیادہ نشستوں پر اکھٹے ضمنی انتخابات ہوئے ہوں۔ ان ضمنی انتخابات کا الیکشن کمیشن پر کافی مالی بوجھ پڑے گا۔ تاہم یہ ایک دستوری ذمہ داری ہے جسے بہرصورت ادا کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ 60 دن کے اندر الیکشن کرانے کی شرط تو ہے لیکن تمام نشستوں پر ایک ہی وقت میں ضمنی انتخابات کرانے کی کوئی شرط نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ استعفوں کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں کیونکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں جب یہ فیصلہ کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ شاہ محمود قریشی نے خود کہا تھا کہ 95 فیصد اراکین نے استعفے دینے کی مخالفت کی تھی۔