اتنی بڑی دھمکی تھی تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سےاحتجاج کیوں نہیں کیا؟ حناربانی کھر

اتنی بڑی دھمکی تھی تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سےاحتجاج کیوں نہیں کیا؟ حناربانی کھر
وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی دھمکی تھی تو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے سےاحتجاج کیوں نہیں کیا؟ مراسلہ آنے کے بعد کئی روز خاموش کیوں بیٹھے رہے؟

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس پر بیان دیتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہ آج قومی سلامتی کمیٹی میں اسد مجید سے سائفر سے متعلق پوچھا گیا، سفیر نے وضاحت کے ساتھ سائفر کے مندرجات سے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو آگاہ کیا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ سائفر میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی بنیاد پر سفیر نے ڈی مارش کی تجویز دی تھی، سفیر نے کہا سائفر میں جو زبان استعمال کی گئی وہ غیر معمولی تھی۔

وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ امریکی عہدیدار کی گفتگو پر امریکا سے فوری احتجاج کرنے سے منع اور کسی نے نہیں بلکہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں بات چیت کرتے ہوئے حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیدار کی گفتگو کی اطلاع شاہ محمود قریشی کو فوری دے دی گئی تھی مگر شاہ محمود نے امریکا کو فوری احتجاجی مراسلہ دینے سے منع کر دیا تھا۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید کے مراسلے کی آخری تین لائنوں میں سفیر کا اپنا تجزیہ اور تجویز تھی کہ امریکا کو ڈی مارش دیا جائے اور پوچھا جائے کہ یہ کسی کی ذاتی پوزیشن ہے یا حکومت کی رائے ہے؟

وزیر مملکت نے کہا کہ پاکستانی سفیر اسد مجید نے پروفیشنل انداز میں اپنا فرض ادا کیا، سائفر میں افغانستان، یوکرین اور پاک امریکا تعلقات پر بات کی گئی تھی۔

حنا ربانی کھر نے کہا کہ ادارے اور مراسلہ لکھنے والے سفیر متفق ہیں اسے سازش نہیں کہا جا سکتا، سابقہ حکومت کی جانب سےجھوٹ اس تواتر سے بولا گیا کہ سچ محسوس ہونے لگے۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے اس سائفر کو کبھی خط کہا تو کبھی مراسلہ کہا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور وفاقی وزراء بھی موجود تھے۔

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان نے قومی سلامتی کمیٹی کو مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کے حوالے سے بریفنگ دی جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مراسلے میں کسی قسم کی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔