اگر عمران خان کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں تو نومبر 2022ء میں ادارے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی

اگر عمران خان کوئی امید لگائے بیٹھے ہیں تو نومبر 2022ء میں ادارے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم عمران خان یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ رواں سال نومبر میں اہم ادارے میں کوئی تبدیلی ہو جائے گی، تو یہ ان کی خواہش ہی رہے گی، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اگست یا ستمبر سے قبل عمران خان اسلام آباد کی جانب اپنا مارچ شروع کر سکیں گے کیونکہ عیدالفطر کے فوری بعد ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ مئی، جون اور جولائی صوبہ پنجاب میں گرمی کے حوالے سے بہت سخت ترین مہینے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پنجاب کی بجائے ہو سکتا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا سے جلوس کی شکل میں اسلام آباد داخل ہونے کی کوشش کریں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان جس کا استعفیٰ مانگنا چاہتے ہیں، وہ نام ان کی زبان پر نہیں آ رہا۔ استعفیٰ تو ان کو آرمی چیف جنرل باجوہ کا چاہیے۔ وہ کیوں نہیں کہتے کہ جنرل باجوہ نے مجھے اقتدار سے نکالا، مجھے ان کا استعفیٰ چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ نام لے دیں تو پھر ہم بھی مانیں گے کہ عمران خان لیڈر ہیں۔ یہ کیا کہ اپنے اقتدار کے خاتمے کو کبھی امریکا اور کبھی چیف الیکشن کمشنر پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ کوئی ہمت اور جرات والی بات نہیں ہے۔

اس معاملے پر بات کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ عمران خان جو نام نہیں لے رہے، وہ اس لئے ہے کیونکہ لگتا ہے کہ ان کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو چکا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ 2022ء کے آخر میں تبدیلیاں تو ہونی ہیں، اس لئے ان تبدیلیوں کے بعد ہو سکتا ہے کہ ہمارا قرعہ پھر سے نکل آئے تو کیوں ادارے کو ناراض کریں کیونکہ ایسا کر دیا تو پھر کافی عرصے تک یہ کام سے گئے۔

اس پر مزمل سہروردی نے دعویٰ کیا کہ آج میں دوبارہ نیا دور ٹی وی کے پلیٹ فارم سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ نومبر 2022ء کو کوئی تبدیلی نہیں ہونی۔ ''ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے'' عمران خان اگر کسی تبدیلی کی امید پر بیٹھے ہیں تو ایسا کچھ نہیں ہونا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان حکومتی معاملات پر کوئی اختلافات نہیں تھے۔ ان باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف کیساتھ ملاقات کا مقصد شکوے شکایتیں نہیں تھا۔ بلکہ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ ملک میں ڈیموکریسی کو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے آگے کیسے لے کر چلنا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں نے مستقبل کی سیاست کے حوالے سے بات کی تاکہ کوئی سپوائلر درمیان میں آکر اسے سبوتاژ نہ کر سکے جس طرح عمران خان نے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں گورنرشپ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ چیزیں تو یہاں شہباز شریف نے حل کر دینی تھیں، اس مقصد کیلئے نواز شریف کے پاس جانا ضروری نہیں تھا۔ چارٹر آف ڈیموکریسی 2 والی بات درست ہے۔ اس کی مختلف سیاسی حلقے تصدیق کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جب میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہو یا لندن میں ہی ایک نئے میثاق جمہوریت کے معاہدہ پر دستخط ہو جائیں جس میں زیادہ جماعتیں شامل ہونگی۔