ایم جی موٹرز انڈر انوائسنگ فراڈ کی تحقیقات شروع کر دی گئیں

ایم جی موٹرز انڈر انوائسنگ فراڈ کی تحقیقات شروع کر دی گئیں
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے اعلیٰ افسران کا دعویٰ ہے کہ ایم جی موٹرز انڈر انوائسنگ میں فراڈ کے خلاف تحقیقات کے لئے قائم کی گئی کمیٹی نے باقاعدہ طور پر کام شروع کیا ہے اور جلد انکوائری رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس انکوائری میں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوگا جس میں سابق ممبر کسٹم طارق ہدا، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت اُن افسران کے خلاف تحقیقات ہونگی جن پر اس حوالے سے الزامات ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 2021 میں ایم جی آٹو موٹرز نے دس ہزار سے زیادہ گاڑیاں درآمد کیں اور طارق ہدا ممبر کسٹم کی مدد سے اربوں روپے کی کسٹم ڈیوٹی کا فراڈ کیا۔ گاڑی کی قیمت CKD Kits سے بھی کم ظاہر کی گئی CKD Kit 16000 ڈالر میں اور پوری گاڑی 11000 سے 13000ڈالر میں کلیئر کی گئی تھی۔

نیا دور میڈیا کو ایف بی آر کے ذرائع نے تصدیق کی سابق وزیر خزانہ شوکت ترین اور طارق ہدا نے ناصرف ایم جی موٹرزکو غیر قانونی معاونت اور ٹیکس چھوٹ فراہم کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دونوں نے مل کر کسٹم قوانین میں بھی تبدیلی کی جس کی وجہ سے ایم جی موٹرز کو اربوں روپے منافع جبکہ قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔

ذرائع کے مطابق ایم جی موٹرز کو اربوں روپے فائدہ اور ٹیکس چھوٹ فراہم کرنے کے لئے کسٹم قانون کے سیکشن 81 میں بھی تبدیلی کی تاکہ ایم جی موٹرز کو غیر قانونی معاونت فراہم کی جا سکے۔

گذشتہ سال ایم جی موٹرز کے حوالے سے ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کمپنی نے 400 ایم جی ایچ ایس گاڑیاں چین سے درآمد کی تھیں اور ان کی قیمت کم ظاہر کر کے ایک ارب روپے سے زیادہ کا ٹیکس بچایا گیا۔

ایم جی موٹرز کی گاڑیاں پاکستان میں جے ڈبلیو نامی مقامی کمپنی منگوا رہی ہے جسے حال ہی میں ملک میں مقامی سطح پر ان کے لئے ’گرین فیلڈ سٹیٹس‘ ملا ہے۔ ایم جی کی گاڑیاں پاکستان لانے کے لیے اس کمپنی کا معاہدہ چینی سرکاری کمپنی ’ایس اے آئی سی‘ سے ہوا تھا۔

ایم جی پاکستان کے اہم سٹیک ہولڈر جاوید آفریدی نے اپنی کمپنی پر لگنے والے ان الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ملک کی ’بڑی آٹو کمپنیوں نے سستی گاڑیاں امپورٹ کرنے سے روکنے کے لیے اداروں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس معاملے کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں اٹھایا اور چیئرمین ایف بی آر کو تفتیش کرکے ایک مہینے میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا۔ چیئرمین نے اب چار ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس معاملے کی چھان بین کرکے اربوں روپے کے فراڈ میں ملوث ذمہ دارن کا تعین کرے گی۔

چیئرمین نے حکم جاری کیا ہے کہ ایڈجوڈیکیشن پروسیڈنگ جو کہ پہلے بھی ہو چکی ہے کو دوبارہ کھولا جائے۔ چار رکنی کمیٹی کو آرڈر جاری کیا گیا ہے کہ اپنی رپورٹ 15 مئی تک پیش کرے۔

ایف بی آر ذرائع کے مطابق اس مبینہ فراڈ کی تحقیقات جاری ہیں۔ دیکھا جائے گا کہ ایم جی موٹرز کو معاونت فراہم کرنے کے لئے صرف قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے یا پھر ملی بھگت سے ان کو فائدہ بھی دیا گیا ہے۔

باخبر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ ایم جی موٹرز کے پاکستان میں سٹیک ہولڈر جاوید آفریدی کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، شوکت ترین اور حکومت کے دیگر قریبی لوگوں تک رسائی تھی جن کی وجہ سے انھوں نے عمران خان حکومت سے فائدہ لیا اور جواب میں پی ٹی آئی کو فنڈنگز بھی دی۔

دوسری جانب خواجہ آصف کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے پر ردعمل دیتے ہوئے جاوید آفریدی نے کہا کہ ہماری کمپنی کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی۔

انھوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر قسم کے قانونی عمل کے لئے تیار ہیں اور ہم ہر فورم پر ثابت کرینگے کہ غلط نہیں تھے لیکن آپ بھی چین کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے خلاف سازش کررہے ہیں۔

اس حوالے سے نیا دور میڈیا نے طارق ہدا سمیت سابق وزیر خزانہ شوکت ترین سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔