خواجہ سرا طبقے سے متعلق تضحیک آمیز ڈائیلاگ، فلم ’دم مستم‘ کیخلاف کارروائی کا مطالبہ

خواجہ سرا طبقے سے متعلق تضحیک آمیز ڈائیلاگ، فلم ’دم مستم‘ کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
لاہور ہائی کورٹ نے عیدالفطر پر ریلیز کی جانے والی فلم ’ دم مستم‘ میں استعمال کیے جانے والے قابل اعتراض مکالموں کے خلاف ایک خواجہ سرا کی جانب سے دائر درخواست پر وزارت اطلاعات و نشریات اور وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

انگریزی اخباز ڈان کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سرا کے حقوق کی ایک کارکن زنایا چوہدری نے بیرسٹر احمد پنسوٹا کے ذریعے درخواست دائر کی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ جواب دہندگان کو خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے والے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے کی ہدایت کرے۔

سماعت کے دوران وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں قائم ایک نجی فلم پروڈکشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنی نے حال ہی میں اپنی آنے والی فلم ’ دم مستم‘ کا ٹریلر نشر کیا ہے۔

وکیل نے بتایا کہ فلم میں شہری حقوق، خاص طور پر خواجہ سراؤں کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے کیوں کہ اس میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لیے لفظ ’کھسرا‘ استعمال کیا گیا ہے جو کہ ایک توہین آمیز اصطلاح ہے۔

وکیل نے کہا کہ یہ معاملہ زندگی، آزادی اور وقار کے حق سے متعلق ہے اور آئینی طور پر ضمانت شدہ حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مدعا علیہ کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلم کا یہ مخصوص ڈائیلاگ آئین کے آرٹیکل 4، 9، 14 اور25 اے کے تحت بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہیں، آئین میں جنس کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ جواب دہندگان کو قوانین کی پامالی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے اور یہ بھی ہدایت کرے کہ ایسے تمام پروگرامز پر پابندی لگائی جائے جن میں لفظ ’کھسرا‘ استعمال ہو اور خواجہ سرا کمیونٹی کا مذاق اڑایا گیا ہو اور کسی کو خواجہ سرا فرد/ طبقے کا کسی بھی طریقے سے مذاق اڑانے کی اجازت نہ دی جائے۔

وکیل کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد جسٹس شاہد وحید نے فریقین سے 15 روز میں جواب طلب کر لیا۔