وزیراعظم کا مالی امداد کیلئے سعودی عرب کا دورہ، پیسہ 72 گھنٹوں میں واپس کرنے کی شرط ختم کرانے کی کوشش کرینگے

وزیراعظم کا مالی امداد کیلئے سعودی عرب کا دورہ، پیسہ 72 گھنٹوں میں واپس کرنے کی شرط ختم کرانے کی کوشش کرینگے
شہباز رانا نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران جس امداد کی بات کی جا رہی ہے اس میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کے معاہدے کو آگے بڑھایا جائے گا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے اقتدار کے بعد ان کا پہلا سفر بھی سعودی عرب کا ہی تھا۔ انہوں نے سعودی حکام کیساتھ 6 اعشاریہ 2 ارب ڈالر کے پیکیج پر بات چیت کی تھی۔ تاہم پاک سعودی تعلقات میں خرابی آئی تو ادھار تیل دینے کا معاملہ تک بند ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جو تین ارب ڈالر دیئے گئے تھے، ان کو بھی چین سے قرض لے کر سعودی عرب کو واپس کرنا پڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم گذشتہ سال جب تعلقات میں جب تھوڑی سی بہتری آئی تو عمران خان نے دوبارہ سعودی عرب کا دورہ کیا اور دونوں ملکوں کے درمیان چار اعشاریہ 2 بلین ڈالر کے پیکج پر بات کی۔ اب وزیراعظم شہباز شریف اسی پیکج کو بحال کرانے کیلئے گئے ہیں۔ اس چار اعشاریہ 2 بلین ڈالر کے پیکج میں ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کا ادھار تیل بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی سعودی عرب کے حکام کیساتھ میٹنگ میں کوشش کی جائے گی کہ اس پیکج میں دو ارب ڈالر کا مزید اضافہ کرتے ہوئے ادھار تیل کی مد میں رقم کو بھی دوگنا کیا جائے۔

شہباز رانا کا کہنا تھا کہ موجودہ معاہدے کے مطابق سعودی عرب پاکستان کی طرف سے ڈیفالٹ کی صورت میں رقم کی فوری واپسی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ معاہدے کی ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان معاہدے کی مدت کے دوران کسی بھی وقت سعودی عرب کی جانب سے تحریری درخواست کے 72 گھنٹوں کے اندر 3 ارب ڈالر واپس کرنے کا پابند ہے۔ تاہم نئی حکومت کے پاس رقم واپس کرنے کی طاقت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موخر ادائیگیوں پر تیل کو دوگنا کرکے 2.4 بلین ڈالر کرنے کی درخواست بھی کی جائے گی۔ خالص اضافی مالی امداد 3.2 بلین ڈالر نقد جمع اور موخر ادائیگیوں پر تیل کی شکل میں ہے۔

پروگرام کے دوران شریک گفتگو عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان ایک نئے لیڈر تھے۔ ماضی کے تمام سعودی حکمرانوں کیساتھ شریف خاندان کے نہایت اچھے تعلقات تھے لیکن یہ ایک نئی لیڈرشپ ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ محمد بن سلمان کی پاکستان کے معاملات پر نظر نہیں کیونکہ ہمارا ملک ان کیلئے بہت ضروری بھی ہے۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف کیلئے پرانے رشتے استوار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان بڑے بڑے خوش خوش پاکستان کے دورے پر آئے تھے لیکن پی ٹی آئی سپورٹرز سے معذرت کیساتھ، ہم نے یہاں ایک بندر بٹھایا ہوا تھا۔ عمران خان کو بہت سی چیزوں کی نہ تو سمجھ آئی اور نہ ہی کرنی آئیں۔ پروٹوکول کے معاملے میں وہ بالکل ہی زیرو تھے۔ اس لئے تعلقات بہت گڑ بڑ ہو گئے۔