آرمی چیف کی تعیناتی، طریقہ کار طے کرنے کیلئے بات چیت جاری، ہو سکتا ہے عمران خان بھی اتفاق کرلیں

آرمی چیف کی تعیناتی، طریقہ کار طے کرنے کیلئے بات چیت جاری، ہو سکتا ہے عمران خان بھی اتفاق کرلیں
کامران یوسف نے کہا ہے کہ میری اطلاعات ہیں کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر بات چیت کا عمل جاری ہے، حتیٰ کہ ہو سکتا ہے عمران خان بھی اس سے اتفاق کر لیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بات اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو جنرل فیض حمید سے خدشات ہیں اور اسی کا ذکر آج خواجہ آصف اور آصف زرداری نے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان دونوں شخصیات کی جانب سے جنرل فیض حمید کے بارے میں یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب چند دن قبل ہی پاک فوج کی جانب سے کہا جا چکا ہے کہ قومی ادارے ک سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اختلافات فوج کے اندر ہیں لیکن عسکری قیادت نہیں چاہتی کہ اسے عوامی سطح پر بحث ومباحثے کا ذریعہ بنایا جائے یا اس پر کوئی بات کی جائے کیونکہ اس کا تاثر اچھا نہیں جاتا۔ پاک فوج کے اندر یونیٹی آف کمانڈ ہی سب کچھ ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج آصف زرداری کی جانب سے یہ بیان دینا کہ جنرل فیض حمید کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے، کافی دلچسپ ہے۔

کامران یوسف نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ معیشت ہی پاکستان کا مسئلہ نمبر ون ہے لیکن اس چیز پر بھی تو غور کیا جانا چاہیے کہ ہم آج اس نہج پر کیوں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف نے بی بی سی کو جو انٹرویو دیا اس میں دوسری اہم بات یہ تھی کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو انسٹی ٹیوشنلائز ہونا چاہیے۔ میری اطلاعات ہیں کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان اس پر بات چیت کا عمل جاری ہے حتیٰ کہ ہو سکتا ہے کہ عمران خان بھی اس سے اتفاق کر لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ چیز پاک فوج کیلئے انتہائی ضروری ہو چکی ہے کہ سپہ سالار کی تعیناتی کے معاملے کو انسٹی ٹیوشنلائز کر لیا جائے۔ اس کی واضح مثال ہے کہ کسی کو پاک فضائیہ اور بحریہ کے چیفس کے ناموں تک کا پتا نہیں ہوتا لیکن روایت یہی ہے کہ ان دونوں اداروں میں سب سے سینئرز کی لسٹ وزیراعظم کے پاس آتی ہے اور اس کی منظوری دیدی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ عسکری قیادت فیصلہ کرلے کہ آئندہ کبھی سیاست میں قطعی طور پر مداخلت نہیں کی جائے گی اور ملک کے اندر کبھی مارشل لا نہیں لگے گا تو اس سے خوش آئند اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ ادارے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ سینئر موسٹ کو ہی ہمیشہ آرمی چیف لگایا جائے تاکہ پسند اور ناپسند کا جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ اس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں یکسو ہو کر معیشت پر اپنی توجہ مرکوز کریں کیونکہ پاکستانی اکانومی کی اس وقت جو صورتحال ہے اگر ہم نے مشکل فیصلے نہ کئے تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ایک جوہری ملک ہے، ہم سری لنکا جیسی صورتحال برداشت نہیں کر سکتے۔