نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات قبول نہیں ہیں: ایم کیو ایم

نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات قبول نہیں ہیں: ایم کیو ایم
ایم کیو ایم پاکستان نے کہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں تک انتخابات قبول نہیں ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کو اپنی تجاویز سے آگاہ کر دیا ہے۔

تفصیل کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول کا دیگر رہنماؤں کے ہمراہ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق حکومت امیر اور غریب میں تفریق رکھے۔ موٹر سائیکل والوں کے لئے قیمت الگ اور جو گاڑیوں کی ٹینکی بھرواتے ہیں، ان میں فرق کیا جائے؟

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ عام انتخابات ان مسائل کا حل ہیں۔ فریش مینڈیٹ لیا جائے، دیر کی تو بدنصیبی ہوگی۔ انتخابی اصلاحات صرف ایک ہفتہ میں ہو سکتی ہیں۔ مشکل حالات ہیں ہمیں ریاست کو دیکھنا ہے یا سیاست کو؟

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کو بچانے کی خاطر مشکل فیصلے لینے چاہیں،  سیاست کی قربانی دینا ہوگی۔ عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھنے کو تیار ہو گئے تھے۔ ہم نے سب سے آخر میں حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ ہمارے پاس دو آپشن تھے اعتماد یا عدم اعتماد۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع سے متعلق قانون سازی کر لینا چاہیے تاکہ بحث ہی نہ ہو۔ بروقت فیصلے نہ ہوئے تو آنے والے معاشی حالات مزید ابتر ہوتے دکھ رہے ہیں۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ مردم شماری کا آغاز اگست کی بجائے جون میں کیا جا سکتا ہے۔ ہم جمہوریت کے قائل ہیں لیکن ابھی تک سمجھ نہیں آرہی بجٹ کون بنائے گا؟ ان مشکلات سے کون نکالے گا؟ نگران حکومت پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جانا چاہیے۔ وزیراعظم کو ملکی معاشی صورتحال پر تشویش ہے۔ انہوں نے کل تمام اتحادیوں کا مشاورتی اجلاس بلا لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاہدوں پر سب سے زیادہ عملدرآمد تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا۔ ہمارے پاس تحریک عدم اعتماد پر نیوٹرل ہونے کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ 20 منحرف ارکان کو سندھ ہائوس میں دیکھا تو اتحادی ہونے پر فیصلہ لینا پڑا۔

رہنما ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے پوری طاقت سے سیاست میں واپس آئیں۔ ہم چھینی گئی 14 سیٹیں واپس لینا چاہتے ہیں۔ جب تک الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا تھا تو ہم ساتھ کھڑے رہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کے ساتھ معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہوا تو اپوزیشن میں بیٹھنے کا آپشن کھلا ہے۔ نسرین جلیل قابلیت میں عمران اسماعیل سے گورنر کے لئے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ بھارت کو لکھے خط پر انہوں اپنی پوزیشن 4 دن بعد کلئیر کردی تھی۔ اس خط کی ایک کاپی چیف جسٹس کو بھی بھجوائی تھی۔