انڈین عدالت نے کشمیری رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی

انڈین عدالت نے کشمیری رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی
ہندوستان کی ایک خصوصی عدالت نے علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے یاسین ملک کو مجرمانہ سرگرمیوں، دہشت گرد تنظیم کا حصہ بننے، دہشت گرد کارروائیاں کرنے اور دہشتگردی کی مالی معاونت کے الزام میں مجرم قرار دیا تھا۔

یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ( جے کے ایل ایف) کے چیئرمین ہیں۔ یہ جماعت کشمیر کی مکمل آزادی اور وحدت کی علمبردار ہے۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ایک زائد دھڑے انڈیا اور آزاد کشمیر کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی سرگرم ہیں۔ یاسین ملک اپنے نوجوانی کے دور سے ہی آزادی پسند سیاست میں سرگرم ہو گئے تھے۔ انہیں کئی بار قید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

90ء کی دہائی کے وسط تک یاسین ملک کی جماعت انڈیا کے خلاف مسلح کاررائیوں کو درست سمجھتی تھی تاہم 1994 میں اس جماعت نے عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں یاسین ملک نے انڈین زیرانتظام کشمیر میں ایک دستخطی مہم بھی چلائی تھی۔

یاسین ملک کو اپریل 2019 میں انڈیا کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے دو برس پرانے ’دہشت گردی اورر علیحدگی پسندی کے لیے فنڈنگ‘ کے ایک کیس میں گرفتار کیا تھا ۔ وہ اس مقدمے سے قبل مارچ سے ہی پپلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قید تھے۔ علاوہ ازیں ان پر 1990 میں انڈین ایئر فورس کے چار افسران کو قتل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس میں ان کے ساتھ سات دیگر افراد کو بھی نامزد کیا گیا۔ 1995 میں اس کیس میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر جاری کیا تھا جسے اپریل 2019 میں اسی عدالت نے ختم کر دیا تھا۔ یاسین ملک پر ایک الزام یہ بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے 1989 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی ربیعہ سعید کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔

یاد رہے کہ نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ انھیں سزائے موت دی جائے۔ اس پر یاسین ملک نے عدالت سے کہا تھا کہ پہلے میرے سوالات کا جواب دیجئے۔ اس کے بعد مجھے جو سزا دینی ہو دے دیں، میں آپ سے کوئی بھیک نہیں مانگوں گا۔ یاسین ملک نے سوال اٹھائے تھے کہ اگر میں دہشتگرد تھا تو انڈیا کے 7 وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ اگر میں دہشتگرد تھا تو اس پورے مقدمے کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہ فائل کی گئی؟ تاہم عدالت نے یاسین ملک سے کہا کہ ان تمام باتوں کا ٹائم وقت گزر چکا، اب بتائیں کہ آپ کو جو سزا تجویز کی گئی، اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بتائیں۔ اس پر کشمیری رہنما نے کہا تھا کہ جو عدالت کو ٹھیک لگتا وہ کرے۔ میں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا۔

یاسین ملک نے کیس کے ٹرائل کے دوران خود پر عائد الزامات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ میرے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ جھوٹا اور سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا۔ اگر آزادی کی جدوجہد جرم ہے تو میں یہ جرم کرنے اور اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔