2023 کے عام انتخابات پر 47ارب 41 کروڑ 73لاکھ روپے خرچ ہوں گے

2023 کے عام انتخابات پر 47ارب 41 کروڑ 73لاکھ روپے خرچ ہوں گے
2023 کے عام انتخابات پر 47ارب 41 کروڑ 73لاکھ روپے خرچ ہونگے۔

آئندہ سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات 2023 پر 47 ارب 41 کروڑ خرچ ہونگے۔ وزیرِ مملکت پارلیمانی امور نے اخراجات کی تفصیل پر قومی اسمبلی کو تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے جواب جمع کردیا۔

تحریری جواب کے مطابق ٹرینگ ونگ پر 1ارب 79 کروڑ اور90لاکھ خرچ ہونگے، بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ پر 4ارب 83کروڑ 55لاکھ خرچ ہونگے۔

تحریری جواب کے مطابق انتخابی فہرستوں پر 27 کروڑ 20 لاکھ، الیکٹرانگ ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ پر 5ارب 60کروڑ 6 لاکھ خرچ ہونگے۔

تحریری جواب کے مطابق انتخابات کے لیےآرمی کی خدمات،سیکورٹی پر 15ارب روپے خرچ ہونگے جبکہ میڈیا پر آگاہی مہم پھیلانے کے اشتہارات پر 50 کروڑ خرچ ہونگے۔

تحریری جواب کے مطابق عام انتخابات میں پنجاب میں ہونے والے انتخابات پر 9 ارب، 65 کروڑ، 85 لاکھ روپے جبکہ سندھ میں 3 ارب ، 65 کروڑ، 58 لاکھ روپے خرچ ہونگے۔

خیبر پختونخوا کے انتخابات پر 3 ارب، 95 کروڑ ، 45 لاکھ جبکہ بلوچستان کے انتخابات پر 1 ارب، 11 کروڑ ،13 لاکھ روپے خرچ ہونگے۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں انتخابات ایکٹ 2017ء میں مزید ترامیم کرنے کا انتخابات ترمیمی بل 2022ء پیش کردیا گیا۔سپیکر قومی اسمبلی نے انتخابات ایکٹ 2017ء میں مزید ترمیم انتخابات ترمیمی بل 2022ء کی ترامیم پیش کرنے کی اجازت دیدی۔

قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بِل قومی اسمبلی سے منظور کردیا۔ اس بل کی منظوری کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کا ووٹ کا حق ختم ہوگیا۔

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے دور میں تمام سیاسی جماعتوں کی متفقہ رائے سے قانون سازی کی گئی لیکن پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات کے نام پر متنازعہ ترامیم پیش کی اور ای وی ایم مشین کے سلسلے میں سٹیک ہولڈرز کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ،الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کرانا مشکل ہے۔

الیکشن کمیشن نے واضح کیا تھا کہ ضمنی الیکشن میں اس کا تجربہ کیا جاسکتا ہے مگر عام انتخابات میں نہیں۔ اعظم نزیر تارڑ نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے اس کو اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کراکر سینیٹ کمیٹی کو بھجوایا گیا لیکن سینیٹ کمیٹی نے اسے کثرت رائے سے مسترد کیا تو اسے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا گیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جو قانون 2017ء میں بنا تھا تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے اس پر اتفاق رائے کیا تھا۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو کوئی بھی ووٹ کے حق سے محروم نہیں کرسکتا اور اس حوالے سے ہمارے بارے میں افواہ ہے کہ شاید ہم اوورسیز کے ووٹ کے حق میں نہیں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم ای وی ایم اور ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں لیکن ہم صرف ڈرتے ہیں کہ جب آر ٹی ایس بیٹھ سکتا ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

اپوزیشن لیڈر راجا ریاض احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پکستان میں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں انٹرنیٹ نہیں ہے اور ای وی ایم نہیں چل سکتی اور ای وی ایم بعض علاقوں میں قابل استعمال ہی نہیں ہے ،اس لئے اس پر آنے والی ترامیم ہونی چاہیئں جو بھی ملک کے مفاد میں ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں عوام کو ووٹ کاسٹنگ میں سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور دھاندلی کی روک تھام کی ضرورت ہے۔

ایم کیو ایم کے صابر قائم خانی نے قومی اسمبلی میں بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط الیکشن کمیشن اور مضبوط قانون کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے اور ہم ہمیشہ الیکشن میں اس معاملے میں متاثر رہے ہیں،جو ترامیم لائی گئی ہیں وہ وقت کی ضرورت تھی اور جن جماعتوں کی اس ایوان میں نمائندگی نہیں ہے ان سے بھی رائے لینا ضروری ہے اور 2017ء کا منظور کردہ بل اگر واپس آرہا ہے تو اس کی حمایت کریں گے.

غوث بخش مہر نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم دنیا میں ہر جگہ ہیں ہمیں ٹرائی کرنا چاہیے، پورے ملک میں نہیں تو کچھ جگہوں پر ای وی ایم استعمال کرنا چاہیے۔

مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ہم نے پچھلی حکومت میں اس بل کی مخالفت کی تھی ،کیونکہ یہ تمام سیاسی پارٹیوں کا مسئلہ ہے ،اور ہم تو کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومت اپنے دن پورے کرے اور جو اپنے حالت آپ مر رہا تھا آپ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا ۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس بل پر الیکشن کمیشن سمیت سیاسی پارٹیوں سے بھی رائے لی جائے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔