جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع لیکن ٹی ٹی پی سے مذاکرات کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے

جنگ بندی میں غیر معینہ مدت تک توسیع لیکن ٹی ٹی پی سے مذاکرات کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے
گذشتہ کچھ روز سے ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سوات کے دو اہم کمانڈروں مسلم خان اور محمود خان کی رہائی کے لئے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے۔

بعض اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ دونوں کو فوج کے حراستی مراکز سے رہا کرکے افغان طالبان کے حوالے کیا گیا ہے اور مذاکرات کی کامیابی کے بعد دونوں کو ٹی ٹی پی کے حوالے کیا جائے گا۔

ٹی ٹی پی کے مسلم خان اور محمود خان کون ہیں؟

مسلم خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے ہے۔ ان کو ٹی ٹی پی کے اندر ایک اہم لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بطور ترجمان بھی وابستہ رہے۔

ان کے علاوہ محمود خان کا تعلق بھی سوات سے ہے اور ان کو بھی اہم کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ سیکیورٹی فورسز نے ستمبر 2009 میں دونوں کو سوات کے ہیڈ کوارٹرز مینگورہ سے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا تھا۔ حکومت نے دونوں کی سر کی قیمت ایک ایک کروڑ روپے مقرر کی تھی۔

ٹی ٹی پی اور حکومتی مذاکرات

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان گذشتہ دو ماہ سے امن مذاکرات افغانستان میں جاری ہیں۔ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے پیش نظر عیدالفطر کے موقع پر دس روزہ سیز فائر کا اعلان کیا تھا اور بعد میں پندرہ روزہ توسیع کی گئی تھی۔

اب یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی نے سیز فائر غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق دونوں فریقوں نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے تک مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن حکومت پاکستان ان مذاکرات پر مکمل خاموش ہے۔

امن مذاکرات پر حکومت پاکستان کی خاموشی کی وجوہات کیا ہیں؟

گذشتہ ایک دہائی سے طالبان پر رپورٹنگ کرنے والے پشاور میں مقیم صحافی رسول داوڑ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت ان مذاکرات پر مکمل خاموش ہے جبکہ دوسری جانب طالبان کی جانب سے ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ ان مذاکرات پر پیش رفت ہو رہی ہے۔

رسول داوڑ کہتے ہیں کہ طالبان ذرائع سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ پاکستان تین شرائط پر ابھی تک راضی نہیں ہوا جن میں فاٹا انضمام کا خاتمہ، قبائلی اضلاع سے مکمل فوجی انخلا اور طالبان کی اسلحے سمیت قبائلی اضلاع میں واپسی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ طالبان لیڈرشپ کے لیے سر عام معافی اور ان کی رہائی سمیت ان کے خلاف مقدمات ختم کرنا ایسے مطالبات ہیں جن پر دونوں فریقوں کے بیچ پیش رفت ہوئی ہے۔

طالبان قبائلی اضلاع سے فوجی انخلا کیوں چاہتے ہیں؟

ماضی میں امن مذاکرات کا حصہ رہنے والے سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ٹی ٹی پی قبائلی اضلاع سے فوجی انخلا چاہتی ہے اور یہ قبائلی اضلاع میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا بھی مطالبہ ہے۔ اس مطالبے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طالبان لوگوں کے مطالبے میں خود کو شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اگر ان کی واپسی ہو تو لوگ ناصرف ان کو اچھی نظر سے دیکھیں بلکہ ان کے منشور کے ساتھ بھی کھڑے ہوں لیکن دوسری جانب عام لوگوں کا اس جنگ میں بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور وہ طالبان کی واپسی نہیں چاہتے ہیں۔

مسلم خان اور محمود خان کو فوجی عدالت نے کیا سزائیں سنائی ہیں؟

سال 2016 میں پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے مسلم خان کو 31 سویلین اور سکیورٹی اہلکاروں کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی تھی۔ اسی سال سوات ہی سے ٹی ٹی پی کے رہنما محمود خان کو چینی انجینئروں کے اغوا برائے تاوان کے مقدمے میں ایک فوجی عدالت نے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کیا مذاکرات کے کامیابی کے کوئی امکانات ہیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ دہشتگردوں کو صدر مملکت کی جانب سے مبینہ معافی نامے کی جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، اگر یہ سچ ہے تو یہ بہت تشویشناک ہے کیونکہ یہ لوگ عام پاکستانیوں سمیت سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے قتل میں ملوث رہے ہیں اور باقاعدہ عدالت نے ان کو سزائے بھی سنائی ہے۔ ہمارا شروع دن سے یہی مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، ان کی تفصیلات پارلیمان میں لائی جائے۔ یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی تشویشناک ہے کہ قوم کے مجرم جو آئین کو نہیں مانتے ان کے ساتھ حکومت یا عسکری قیادت پارلیمان کو اعتماد میں لئے بغیر مذاکرات کریں۔

صحافی رسول داوڑ کہتے ہیں کہ مذاکرات کے اس پورے عمل سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کامیاب نہیں ہونگے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کابل میں افغان طالبان کی واپسی کے بعد خود کو زیادہ محفوظ سمجھ رہے ہیں اور وہ مذاکرات کی حق میں نہیں اور جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ ان مذاکرات میں کلیدی کردار حقانی نیٹ ورک ادا کر رہی ہے اور ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور موجودہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اس سلسلے میں کابل کا دورہ کرکے مذاکرات میں حصہ لیا تھا مگر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی۔

ٹی ٹی پی کے مطالبات کتنے اہم ہیں؟

رستم شاہ مہمند بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں کیونکہ طالبان نے جو مطالبات رکھے ہیں وہ حکومت پاکستان کے لیے ناممکن ہیں۔ ان کے مطالبات یہی ہیں کہ لاپتہ افراد کی واپسی ہو، فوجی انخلا ہو، طالبان کی واپسی ہو اور ٹی ٹی پی کے مارے جانے والے اہلکاروں کو معاوضہ دیا جائے جن کو پورا کرنا ناممکن دکھائی دے رہا ہے اور اگر ممکن ہوگا تو اس میں بہت وقت لگے گا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔