تحریک طالبان پاکستان فاٹا انضمام واپس کرنے پر بضد کیوں ہے؟

تحریک طالبان پاکستان فاٹا انضمام واپس کرنے پر بضد کیوں ہے؟
ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات میں حکومت کے سامنے رکھی گئی کئی شرائط سامنے آئی ہیں مگر فاٹا انضمام ختم کرنے اور فاٹا کی پرانی حیثیت واپس بحال کرنے پر تحریک طالبان کی جانب سے مسلسل سخت موقف سامنے آ رہا ہے۔

فاٹا کو خیبر پختونخوا میں کب ضم کیا گیا تھا؟

فاٹا کو سال 2018 میں 31 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں پہلی بار سال 2019 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔

ٹی ٹی پی کی تازہ پریس ریلیز میں کیا کہا گیا ہے؟

تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کی گئی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے مطالبات میں قبائل کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنا ایک اہم مطالبہ ہے اور اسی آزاد حیثیت کی بدولت تین سپر پاورز کو شکست ہوئی۔ پریس ریلیز کے مطابق عالمی کفری ایجنڈہ تھا کہ قبائل کی آزاد حیثیت ختم ہو جائے اور قبائل میں مغربی جمہوری نظام اور کلچر آ جائے تاکہ ان کی جہادی اور دینی اقدار ختم ہو جائیں اور پھر کبھی بھی کفری یلغار کے مقابلے میں یہ جہادی مرکز نہ رہے۔

کیا آئینی طور پر ایسا ممکن ہے؟

گذشتہ دو دہائیوں سے پارلیمنٹ کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں آئینی ترمیم کے ذریعے ضم کیا گیا اور آئینی طور پر فاٹا کی پرانی حیثیت کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ناممکن نہیں لیکن اس کے لئے قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی اور موجودہ سیاسی فضا میں ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ ایسی کوئی قانون سازی ہو۔

وہ کہتے ہیں جب قبائلی اضلاع کو آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا میں ضم کیا جا رہا تھا تو حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹا کیا تھا اور ایک کٹھن مرحلے کے بعد یہ آئینی ترمیم کی گئی تھی۔

فاٹا میں پہلے کون سا قانون نافذ تھا؟

آئینی ترمیم سے پہلے قبائلی اضلاع میں 1901 کا "فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن" جسے عرف عام میں "ایف سی آر" کہا جاتا تھا کا قانون نافذ تھا۔ قبائلی اضلاع وفاقی حکومت کے ساتھ الحاق شدہ تھے۔ 31 وی آئینی ترمیم کے ذریعے ایف سی آر کے نظام کا خاتمہ ہوا۔ آئینی ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع میں پولیس نظام نافذ ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر عدالتیں بھی قائم کی گئی ہے۔

موجودہ آئین اگر مغربی جمہوری نظام ہے تو ایف سی آر کس کا قانون تھا؟

پشاور میں مقیم سینئر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے فاٹا انضمام کو واپس کرنے کا جو مطالبہ سامنے آیا ہے وہ میرے لئے حیران کن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ آئین نظام بقول طالبان کے مغربی جمہوریت کی عکاس ہے تو پھر ایف سی آر بھی تو انگریزوں کا قانون ہے۔ اگر فاٹا انضمام کا خاتمہ ہوتا ہے تو پھر ایف سی آر ہی لاگو ہونا ہے تو وہ بھی تو انگریزوں کا نافذ کردہ ایک کالا قانون ہے۔

ٹی ٹی پی کے دیگر مطالبات میں کیا شامل ہے؟

ٹی ٹی پی کے دیگر مطالبات میں فوجی انخلا، قبائلی اضلاع میں ان کی مسلح واپسی، قیدیوں کو رہا کرنے سمیت دیگر مطالبات بھی شامل ہے۔

فاٹا انضمام کی واپسی تزویراتی عوامل کیا ہیں؟

سماجی علوم اور دہشتگردی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ طالبان قبائلی اضلاع کی آئینی حیثیت اس لئے ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ آئین کے بغیر چلنے والی ایک اکائی ان کے حوالے ہو جہاں ان کی حکمرانی ہو۔ خادم حسین کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان اگر طالبان کا یہ مطالبہ پورا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ جیسے افغانستان طالبان کے حوالے کیا گیا ایسے ہی پاکستان کا ایک حصہ طالبان کے حوالے کیا گیا۔ خادم حسین کہتے ہیں افغانستان میں امارات اسلامی کی حکومت آنے کے بعد اگر پاکستانی طالبان کو یہ علاقے حوالے کئے جاتے ہیں تو یہ امارات اسلامی کا بڑا میدان بن جائے گا اور اگر ایسا ہوا تو اس سے ناصرف ان کو مالی اور انتظامی استحکام ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے علاقائی ممالک سمیت پاکستان پر دباؤ بڑھائینگے جو اس پورے خطے کے لئے ایک خطرہ ہوگا۔

پاکستان اور ٹی ٹی مذاکرات پر کیا پیش رفت ہے؟

اس وقت قبائلی اضلاع کے ممبران پارلیمان، قبائلی عمائدین اور سیاسی جماعتوں کے ممبران کا ایک جرگہ کابل میں افغان طالبان کی موجودگی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے تاہم ابھی تک کوئی اطلاعات نہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان کیا پیش رفت ہوئی۔

آئینی دائرہ کار میں ٹی ٹی پی کو کن مشکلات کا سامنا ہوگا؟

صحافی لحاظ علی کہتے ہیں کہ پہلے قبائلی اضلاع میں نہ پولیس کا نظام تھا اور نہ ہی عدلیہ کا تو مسلح تنظیمیں ناصرف اسلحے کی نمائش کرتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر وہ کوئی جرم کرتی تو نہ ان کی ایف آئی آر درج ہوتی تھی اور نہ ہی عدالت میں کوئی کیس چلتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب چونکہ قبائلی اضلاع میں پولیس، ضلعی انتظامیہ اور عدلیہ کا پورا ایک نظام فعال ہے تو اس لئے طالبان پرانی طرز پر حکمرانی نہیں کر سکتے۔ جیسے اگر اسلحے کی نمائش کریں، کوئی جرم کریں، قانون توڑیں تو ان کے خلاف کیسز کا اندراج ہوگا اور عدالت میں مقدمہ بھی چلے گا۔ میرے خیال میں یہی وہ وجوہات ہیں جس کے بارے میں ٹی ٹی پی سمجھتی ہے کہ یہ ان کے راستے میں رکاوٹیں ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔