ساتویں قومی "مردم" شماری اور اقلیتوں کے تحفظات

ساتویں قومی
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور انسانی حقوق کے باوقار رہنما پیٹر جیکب شائد پاکستان کے اُن گنے چُنے افراد میں سے ہیں جو لفظ " مردم شماری" کی بنیاد میں موجود مرد پردھان نفسیاتی سوچ (پاکستان کے کیس میں یہ لاعلمی تو نہیں ہو سکتی مگر فکری ناخواندگی کی ایک بھرپور مثال ضرور ہو سکتی ہے) کو باشعور اور حقیقت پسندانہ علمی فہم سے بدلنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہیں. اور Census کا ترجمہ "افراد شماری" کے طور پر کرتے ہیں.

بہرحال اس بنیادی نقطے سے آگے جاتے ہوئے قارئین کو بتانا مقصود ہے کہ اہم معاملہ یہ کہ حکومت پاکستان اس برس اگست میں ساتویں افراد شماری کا انعقاد کرنے جا رہی ہے. وفاقی ادارہ شماریات اسے "پہلی ڈیجیٹل افراد شماری" بھی کہہ رہا ہے کیونکہ اس مرتبہ کاغذ پر چھپے فارم پر ڈیٹا لینے کی بجائے شماریاتی عملہ کمپیوٹر ٹیب پر ڈیٹا فیڈ کرے گا جو کہ سنٹرل ڈیٹا کنٹرول روم میں جمع ہو گا اور ڈیجیٹل تجزیے کے بعد ساتویں افراد شماری کے نتائج (جیسا کہ الیکشن کمیشن اپنے ایک مراسلے میں مطالبہ کر چکا ہے) اسی سال دسمبر میں شائع کر دئیے جائیں گے۔ وفاقی ادارہ شماریات پہلی ڈیجیٹل افراد شماری کے لئے بہت سرگرم ہے اور اس حوالے سے تندہی سے کام کیا جارہا ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ کئی ایسے بنیادی نقاط ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے ادارے اور افراد شماری کے ماہرین پاکستان کی ساتویں افراد شماری کے لیے تیاریوں کے فقدان کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور وفاقی ادارہ شماریات سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ احسن اقدام ہو گا کہ اگر جلدی میں کی جانے والی ایک ایسی مشق سے اجتناب کیا جائے کہ جو بعدازاں ادارے پر مختلف آبادیاتی گروہوں کے اعتماد کو کم کرے اور پہلی ڈیجیٹل افراد شماری کے عمل کو ماضی کی طرح مشکوک بنا دے۔ انکا خیال ہے کہ ساتویں افراد شماری کو سال 2023ء میں مکمل تیاری کے ساتھ منعقد کیا جائے اور بنیادی سوالنامے پر مزید کام کیا جائے۔

ملک میں آباد خانہ بدوشوں اور دیگر چھوٹی اقلیتوں کے درست شمار اور انکی آبادی کو الگ پیش کرنے کے لیے سوالنامے پر کام نہیں کیا گیا۔ نیز پاکستان کے مذہبی اور نسلی تنوع کو ظاہر کرنے اور پالیسی کی منصوبہ بندی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے نتائج میں "دیگر" کے طور پر شمار کی گئی اقلیتوں بشمول بہائی،کیلاش، یہودی، بدھ مت وغیرہ کی آبادی کے الگ اندراج کو یقینی بنانے پر بھی کام نہیں کیا گیا۔ شفافیت اور عوامی اعتماد یقینی بنانے کی غرض سے اس مشق میں کلیدی اسٹیک ہولڈرز مثلاً سول سوسائٹی، بین الاقوامی مبصرین اور میڈیا کو افراد شماری کی نگران کمیٹی میں ناصرف شامل کیا جائے، بلکہ انہیں ڈیٹا اکٹھا کرنے، تجزیہ کرنے، اور نتائج اخذ کرنے جیسے اہم. مراحل پر بریفنگ یا ٹریننگ دی جائے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کی جانب سے 1981ء، 1998ء اور 2017ء کی افراد شماریوں کے اعداد و شمار کے تجزیے پر مبنی ایک وائٹ پیپر(قرطاس ابیض)بعنوان "اقلیتوں کی آبادی کے مبہم اعدادوشمار" جاری کیا گیا۔ اس وائٹ پیپر کے مطابق:

الف - مذہبی اقلیتوں کے اعدادوشمار متضاد اور غیر منطقی نمو ظاہر کرتے ہیں، اقلیتوں کی تعداد میں (21%) کمی افراد شماری کے اعداد و شمار کی ساکھ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔

ب - گزشتہ تین افراد شماریوں کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی 1981ء میں کل آبادی کا 3.32 فیصد تھی جو 1998ء میں بڑھ کر 3.73 فیصد ہو گئی اور 2017ء میں کم ہو کر 3.52 فیصد رہ گئی۔2017ء میں مذہبی اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 20 ہزار شمار کی گئی، جن میں مسیحی (2.64 ملین)، ہندو (3.6 ملین)، احمدی (0.19 ملین)، شیڈیولڈ کاسٹ (0.85 ملین) اور "دیگر" مذاہب کے لوگ (0.04 ملین) شامل تھے۔

پ - افراد شماری 2017 ء کے اعداد و شمار پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں اضافے کے حیران کن رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً مسیحیوں کی آبادی میں25.71% (0.55 ملین) اضافہ ہوا ہے، جب کہ ہندوؤں کی تعداد میں 70.62% (1.48 ملین) اضافہ ہوا ہے، نیز 1998ء اور 2017ء کے درمیان "شیڈیولڈ کاسٹ" کے طور پر شمار کئے جانے والے لوگوں کی آبادی میں تیزی سے 157.58% (0.52 ملین) اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس، احمدیوں کی آبادی میں 35.71% (0.09 ملین) کی کمی جب کہ "دیگر مذاہب" کے خانے میں شمار کئے جانے والے افراد میں 60% (0.06 ملین) کی کمی واقع ہوئی۔

ت - افراد شماری کے اعداد و شمار میں مذہبی اقلیتوں کی سماجی اور معاشی ترقی کے حوالے سے الگ ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

ج - نادرا کا ڈیٹا مختلف تضادات کی وجہ سے افراد شماری کے اعداد و شمار کی تصدیق میں مدد نہیں کرتا، مثال کے طور پر اقلیتوں کے زمرے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ 1998ء اور 2017ء کی افراد شماری کے لیے شیڈیولڈ کاسٹ کی آبادی کو بالترتیب 0.33 ملین اور 0.85 ملین دکھایا گیا تھا. تاہم، کسی ایک شہری نے بھی نادرا کے ریکارڈ میں اپنی شناخت "شیڈیولڈ کاسٹ" کے طور پر درج نہیں کرائی۔

چ - نادرا شہریوں کو اپنے مذہبی رجحان کی خود شناخت کرنے کے لیے ایک وسیع انتخاب پیش کرتا ہے اس لیے شہریوں کی مذہبی شناخت کی 18 اقسام درج کی جاتی ہیں۔ یہ قابل تعریف ہے کیونکہ اس کا مطلب مذہبی آزادی کا زیادہ احترام ہے۔ مگر اس کے برعکس افراد شماری کے اعداد و شمار انتخاب کو چھ اور زیادہ سے زیادہ نو زمروں تک محدود کرتے ہیں۔ اس کا مطلب چھوٹی اقلیتوں (بہائی، کیلاش، یہودی، بدھ مت، وغیرہ) کو نظر انداز کرنا ہے جن کی آبادی کو الگ ظاہر کرنے کی بجائے"دیگر" کے طور پر شمار اور جاری کیا جاتا ہے۔

ادارہ برائے سماجی انصاف کے زیر اہتمام، افراد شماری میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور درست شمار کی غرض سے اسلام آباد پریس کلب میں ایک میڈیا کانفرنس کا انعقاد کیا گیا. اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیٹر جیکب نے کہا کہ 2017ء کی افراد شماری میں پیدا ہونے والی بداعتمادی کو صرف شراکتی احتساب اور مردم شماری کے شفاف انعقاد سے ہی دور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ افراد شماری 2022ء کے متعلق تنازعات سے بچنے اور اعدادوشمار کو قابلِ بھروسہ بنانےکے لیے غیر سرکاری اسٹیک ہولڈرز کو بھی مشاورت اور نگرانی کے عمل میں شامل کرے۔

قومی کمیشن برائے اقلیتی امور کے ممبر البرٹ ڈیوڈ نے کہا کہ ادارہ شماریات اور نادرا کی طرف سے استعمال کئے جانے والی اصطلاحات میں ہم آہنگی ہونی چاہیے (مثلاً مخنث کی بجائے لفظ خواجہ سرا کا استعمال زیادہ موزوں ہے)۔ انہوں نے کہا کہ عمومی تاثر کے مطابق پاکستان میں مسیحیوں کی اصل تعداد کو کم ظاہر کیا جا تا ہے جس سے اُن کے سماجی، معاشی و سیاسی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ چونکہ چھٹی افراد شماری کے نتائج متنازعہ ہو گئے تھے لہذا ڈیٹا پروسیسنگ میں رازداری کا کلچر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز مردم شماری کے نتائج کو تمام سطحوں (یونین کونسل، تحصیل اور ضلع) پر جاری کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کا سرکاری اعدادوشمار پر اعتماد بہتر ہو۔

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکسپرٹ مختار احمد علی نے کہا کہ افراد شماری کی قومی اہمیت ہے جس کے ذریعے صوبوں میں وسائل کی تقسیم، قانون ساز اسمبلیوں میں نمائندگی اور انتخابی حلقہ بندیوں میں مدد ملتی ہے۔ لہذا، مشترکہ مفادات کونسل کو صوبوں کے مابین بداعتمادی دور کرنے اور بڑے منصوبوں پر اتفاق رائے پیدا کرنی کے ضرورت ہے۔ نیز شراکتی شفافیت، ٹھوس تکنیکی منصوبہ بندی، معلومات کی ترسیل، اور تربیت کے ذریعے قومی افراد شماری کے معتبر نتائج کے لیے سول سوسائٹی کی طرف سے اجاگر کیے گئے مسائل پر غور کرنا چاہیے۔ ادارہ شماریات کو اچھے اعدادوشمار اور ترقی کے اشاریوں کی نشاندہی کے لیے درست سوالات تیار کرنے کی ضرورت ہے جو محققین، پالیسی سازوں اور سماجی سائنسدانوں کے بہتر تجزیہ کے لیے قابل استعمال ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی دو افراد شماریوں نے پاکستان میں مذہبی تنوع کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے، اس لیےقومی شمار سے متعلق شکایات کا بروقت اندراج اور مؤثر آزالہ یقینی بنایا جائے تاکہ افراد شماری کے نتیجہ میں درست اور قابل اعتماد اعدادوشمار سامنے آئیں۔