بجٹ میں ملکی دفاع کیلئے 1523روپے، تعلیم کیلئے صرف 109 ارب روپے مختص، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ

بجٹ میں ملکی دفاع کیلئے 1523روپے، تعلیم کیلئے صرف 109 ارب روپے مختص، تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ اس بجٹ میں ملکی دفاع کیلئے 1523 ارب روپے جبکہ تعلیم کیلئے صرف 109 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔

تفصیل کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23-2022ء کے لئے 95 کھرب حجم کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔

مالی سال 23-2022ء کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں:

بجٹ میں ماحولیاتی تبدیلی کے لئے 10ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سولر پینل کی درآمدات پر صفر سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔

1600 سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

40 ہزار ماہانہ سے کم آمدن والوں کو ماہانہ 2 ہزار روپے دیے جائیں گے۔

کم از کم ایک لاکھ سے زائد ماہانہ تنخواہ پر ٹیکس ہوگا۔

تعلیم کے لئے 109 ارب روپے بجٹ میں مختص کئے گئے ہیں۔

ایک کروڑ طلبہ کو بے نظیر سکالرشپ دی جائے گی۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے 364 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 242 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔

سبسڈیز کے لئے 699 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

پنشن کی مد میں 530 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 550 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ملکی دفاع کے لئے ایک ہزار 523 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے لئے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 3 ہزار 144 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

کل اخراجات کا تخمینہ 9ہزار 502 ارب روپے ہے۔



وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات میں اضافے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، درآمدات اس وقت 76 ارب ڈالر کی متوقع ہیں، اگلے سال ان میں کمی 70 ارب ڈالر کی سطح پر لائی جائیں گی۔ برآمدات اس وقت 31 عشاریہ 3 ارب ڈالر ہیں، اگلے مالی سال ان کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے اقدامات کیے جائیں گے، کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو جی ڈٰی پی کے منفی 4 عشاریہ ایک فیصد سے گھٹا کر الگے مالی سال میں جی ڈی پی کے منفی 2۔2 فیصد پر لایا جائے گا۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس سال جی ڈی پی کا مجموعی خسارہ 8 عشاریہ 6 فیصد ہے، اس میں بتدریج کمی کی جائے گی، اگلے سال میں کمی لا کر 4 عشاریہ 9فیصد تک کیا جائےگا، اسی طرح مجموعی پرائمری بیلنس جو جی ڈی پی کا منفی 2 اعشاریہ 4 فیصد ہے اس میں بہتری لا کر اگلے مالی سال میں اس کو مثبت صفر عشاریہ انیس فیصد پر لایا جائے گا۔

وفاقی بجٹ 2022-23ء میں تجویز کردہ سبسڈیز کی تفصیلات

وفاقی بجٹ 2022-23 میں تجویز کردہ سبسڈیز کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق توانائی کے شعبے کو اگلے مالی سال میں 570 ارب روپے کی سبسڈی کی تجویز ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات پر اگلے مالی سال میں 71 ارب روپے جبکہ پاسکو کیلئے اگلے مالی سال میں 7 ارب روپے کی سبسڈی کی تجویز ہے۔

بجٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کو اگلے مالی سال میں 17 ارب روپے، گلگت بلتستان کو گندم کی خریداری کیلئے 8 ارب روپے اور میٹرو بس کو 4 ارب روپے کی سبسڈی کی تجویز ہے۔

کھاد کے کارخانوں کو حکومت کی جانب سے 15 ارب روپے سبسڈی جبکہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو 50 کروڑ روپے کی سبسڈی کی تجویز ہے۔

نیا پاکستان کیلئے مارک اپ کی ادائیگی کیلئے 50 کروڑ روپے سبسڈی کی تجویز جبکہ کھاد کی امپورٹ کیلئے 6 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز ہے۔

درآمدی موبائل فونز کی درآمد پر لیوی عائد کرنے کا فیصلہ

فنانس بل 2022-23ء کے نئے بجٹ میں درآمدی موبائل فونز کی درآمد پر لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

درآمدی فونز پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے، 30 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے، 30 ڈالر سے 100 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 2 سو روپے جبکہ 200 ڈالر کے درآمدی موبائل فون پر 600 روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز فنانس بل میں شامل ہے۔

بجٹ دستاویز کے مطابق 350 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 1800 روپے جبکہ 500 ڈالر کے موبائل فون پر 4 ہزار لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

فنانس بل میں 700 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 8 ہزار روپے جبکہ 701 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

وفاقی حکومت نے 5100 ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا

اگلے مالی سال قرض ادائیگی کے لیے 3950 ارب روپے، دفاع کے لئے 1523 ارب روپے، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 550 ارب روپے اور وفاقی حکومت کے مجموعی اخراجات کا تخمینہ 9502 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر ریونیو کا ہدف 7004 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

بجٹ تقریر میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ گذشتہ حکومت نے پونے چار سال میں 20 ہزار ارب روپے قرض لیا۔ یہ قرض لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، ایوب خان، بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور شاہد خاقان کے ادوار سے بھی زیادہ ہے۔ اگلے مالی سال میں قرض ادائیگی کے لیے 3950 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کے لئے 1523 ارب، سول انتظامیہ کے اخراجات کے لئے 550 ارب اور وفاقی حکومت کے مجموعی اخراجات کے لئے 9502 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اگلے سال پیداواری شرح 5 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ کوشش رہے گی کہ افراط زر میں کمی کرکے 11.5 فیصد کی سطح پر لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی خسارہ کو جی ڈی پی کے چار اعشاریہ نو فیصد تک لایا جائے گا۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت کی ناتجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا، ہمارے پاس وقت کم ہے، ہم نے مشکل لیکن ترقی کا راستہ اختیار کیا ہے۔