"طاقت کا سر چشمہ عوام، 35 پنکچرز اور ووٹ کی عزت" سیاسی نعرے نہ وعدے ہوتے ہیں اور نہ نظریہ

مسلم لیگ ن کے قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت کو دو مہینے ہوگئے۔ پنجاب میں کابینہ بھی بن گئی اور گورنر بھی تعنیات ہوگیا۔ عمران خان کے دھرنے، جلسے ، حقیقی آزادی مارچ اور انقلاب کی سونامی سکڑ کر فی الحال بنی گالہ، میڈیا اور ویڈیوز پیغام تک محدود ہوگئے۔ قومی اسمبلی میں ضیاالحق دور کی طرز پر اپوزیشن وجود میں لائی گئی، سالانہ بجٹ بھی سکون سے قومی اسمبلی میں پیش ہوا اور اس انداز سے پارلیمان اس کو منظور بھی کر دیگا۔

لیکن اس ساری مشق میں وہ عنصریا اس کے جانب پیش رفت نظر نہیں آرہی جس کا چاروں طرف چرچا تھا اور وہ عنصر ہے ووٹ کو عزت دو یا سیویلین بالادستی جو سیاسی غیر جانبداری کا فطری نیتجہ ہونا چاہئے تھا۔

اب تک تو ایسا لگ رہا ہے کہ مالک نے اپنا لاڈلے کو خود سرانہ نکمے پن کے وجہ سے نکالا اور اس کے جگہ ناپسندیدہ لیکن سننے ، سمجھنے اور ان کیلئے کچھ کرنے والوں کو چارج دیا۔

کیونکہ لاڈلہ نہ کچھ سنے اور سمجھنے کا صلاحیت رکھتا تھا اور نہ کچھ کرنے کا، بس اس کو کھیلنے کیلئے صرف کرسی چاہیے تھی۔ دوسرا لاڈلے کا مسلہ یہ تھا کہ ان پر لانے والوں کی چھاپ اتنی نمایاں تھی کہ چھپاکر بھی نہیں چھپتا تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ان کو کرسی پر بیٹھانے کے بعد یہ چھاپ ماند نہیں پڑرہاتھا کیونکہ وہ نہ اشاروں کے زبان سمجھ سکتاتھا نہ اپنی حقیقت ۔

لہذا ،ان کے کچھ نالائقی ،اکڑ پن ، نرگسی ذہنیت جس کے وجہ سے وہ عظیم لیڈر ہونے کے خبط میں مبتلا رہا، اس کی وجہ سے بسا اوقات مالک کو خود منیجر بن کر سامنے آنا پڑتاتھا۔ سو دل پر پھتر رکھ کر اپنے کئی سالوں کی محنت اور بھاری سیاسی اور معاشی سرمایہ کاری کو بھول کر لاڈلے کو فی الوقت کھڈے لائن لگا دیا۔

فی الحقیقت ، ستر سالوں میں یہ پہلی دفعہ ہورہا تھا کہ عوام ، اور وہ بھی مالک کے جنم بھومی سے تعلق رکھنے والے جو اکثریت میں ہے، نے کتے کو بھگانا اور پھتر مارنا چھوڑ دیا تھا بلکہ سیدھا سیدھا اگر پھتر نہیں مارسکتے تھے لیکن انگلی ضرور مالک پر اٹھانا شروع ہوئے تھے ، اور اگر حالات یہی رہتے تو پتھر ک نوبت بھی آسکتی تھی۔

زرہ سوچئے ، اگر لاڈلے نے مالک کے کہنے پر آئی ایم ایف کیساتھ کیے ہوئے معاہدے کے مطابق اس سال مئی کے مہینے کے اختتام تک پیٹرول کی قیمت فی لیٹر تین سو روپے تک بڑھا دیتا، جس کے نیتجہ میں مہنگائی کا طوفان آتا، عوام کی اکثریت کو دو وقت کیا ایک وقت کی روٹی کے بندوبست کے لالے پڑجاتے، عوام کیلئے ہرقسم کی سبسیڈیز ختم کردی جاتی، عوامی ترقی ، فلاح اور خوشحالی سے متعلق ہر مد میں کٹوتیاں ہوتیں اور اس کی جگہ ترقی یافتہ جمہوری فلاحی ریاستوں کے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل معاشی ماہرین ، جو سیکورٹی سٹیٹ کے عوام کیلئے فلاحی اور غریب پرور بجٹ بناتے ہوئے لگان کی مثالیں اور فارمولے تو اس ریاستوں کے دیتے ہیں جہاں سے یہ پڑھے ہیں لیکن وسائل کے تقسیم سیکورٹی ریاست کے ترجیحات کے مطابق طے کرتے ہیں، انکے سمجھ میں نہ آنے والے شماریات کے چکرانی والے دوائی دیتا

۔ اس قسم کے معاشی بحران جو عوام کی زندگی اور ریاست کی سلامتی کو خطرے سے دوچا کرسکتی ہے کے دوران بھی دفاعی بجٹ میں کٹوتی کی بجائے اضافہ کرتا، عسکری کاروبار کو سیویلین تحویل میں نہ لیتا یا کم از کم اس پر ٹیکس نہ لگاتا تو عوام کا ذیادہ ردعمل کس کے خلاف آتا۔ وہ ضرور تاریخ کے اوراق پلٹاکر بنگال کے شدید قحط (1769-70) کا حوالہ دیتا ۔ اس قحط کے سے مجموعی طور پر 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے، ایک تہائی کسان لقمہ اجل بن گئے، دو تہائی مغل اشرفیہ مالی طور پر تباہ ہوگیا لیکن یہ انسانی المیہ بھی کمپنی اور اس کے آدم خور افسروں اور تجاروں کیلئے نفع بخش رہا۔

کمپنی نے ظالمانہ جبر کے ذریعے لگان کے اصول یقینی بنائے بلکہ بعض صورتوں میں ٹیکس کے تخمینوں میں 10 فیصد اضافہ بھی کیا۔ دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کرکے سالانہ بجٹ کا 44 فیصد دفاع کیلئے مختص کیا جو فوج کے تعداد بڑھانے اور چھاؤنیوں کے تعمیر پر خرچ ہونا تھا۔

علی وزیر اس حکومت کے دوران جیل میں تھا اور آج بھی ہے ۔ مگر اس وقت پیپلز پارٹی ، جس کی صوبائی حکومت کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا تھا، کا رویہ معذرت خواہانہ تھا اور نتجتاً انگلی کسی اور طرف مڑ کر مداخلت اور دباؤ کا حوالہ دیتی تھی لیکن آج ان کے پاس یہ بہانہ بھی نہ رہا۔

جبری طور لاپتہ کئے گئے شہرے آج بھی لاپتہ ہیں ، مداخلت کے ناقدین اور عوامی و آئینی بالادستی اور انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے اب بھی زیر عتاب ہیں ۔ جن کے خلاف مقدمات درج کئے گئے تھے وہ مقدمات اب بھی ہیں، جو اپنے زندگی کو در پیش خطرے کے وجہ سے جلاوطن ہوئے وہ اب بھی جلاوطن ہیں کیونکہ وہ اب تک اپنے ملک کو اپنے لئے محفوظ نہیں سمجھتے۔ عدالتوں کا طریقہ انصاف اب بھی وہی ہے جو غیر جمہوری قوتیں چاہتے ہیں۔

طالبان کو ایک بار پھر اچھے بچوں میں تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ ایک بار پھر فاٹا ان کے جھولی میں ڈال دیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات غیر جمہوری عناصر نام نہاد جرگہ کے لبادے میں کر رہے ہیں لیکن اس کے ذمہ داری ووٹ کو عزت دو والی حکومت کو لینا پڑرہی ہے ، اور معاہدہ کے صورت میں پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔

سیویلین ایجنسی سے لیکر عسکری پریمیر خفیہ ایجنسی کوایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے قانونی اختیار دیا گیا کہ وہ اہم سرکاری عہدے داروں کے کلیرنس دیں اور اس کے حق میں دلائل دے رہیں ہیں کہ یہ وزیر اعظم کے ماتحت ہے۔ او بھائی ہم تو سنتے ہیں کہ دوسرے جمہوریتوں میں خفیہ اداروں کو ایک خاص حد سے زیادہ رقم ،جو بعض ملکوں میں 500 ڈالرز تک بتایا جاتی ہے اگر کسی میشن پر خرچ کرنا ہوں تو پارلیمنٹری کمیٹی سے پیشگی منظوری لینی پڑتی ہے۔ ہر اہم میشن اور اسائنمنٹ کی پیشگی منظوری درکار ہوتی ہے۔ وہ اپنے ہر عمل کیلئے حکومت اور پارلیمنٹ کو جوبداہ ہوتے ہیں۔

سب سے بڑی مثال موساد کی ہے جس کی زمہ داری اسرائیل جیسی ریاست کی سلامتی ہے ، وہ ریاست جو ہرطرف سے دشمن اور حریف ریاستوں کے نرغے میں تھی اور اس کو حقیقی اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا تھا لیکن وہاں نہ کبھی جمہوریت ڈی ریل ہوئی اور نہ اس کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کو لا محدود اختیارات حاصل ہیں اور نہ ہی وہ احتساب سے مبرا ہے۔ موساد جو دنیا میں اپنی کامیابیوں اور کارناموں کئے مشہور ہے کو کئی دفعہ مینڈیٹ سے تجاوز کے صورت میں تحقیقات، تادیبی کاروائی اور سرزنش کا سامنا کرپڑا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ جس مقصد کیلئے سیاسی مداخلت اور ہاتھ مروڑنا پڑتا ، وہ اگر کوئی براضا و رغبت اور خوشی سے کرنے کیلئے تیار ہوں تو خود سامنے آنے کی ضرورت کیا ہے۔ جب نام بھی مل رہا ہوں اور دام بھی تو کون کافر چھینا جھپٹی کریں۔

پیپلز پارٹی کو چھوڑ کیونکہ انکے تو ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا کے مترادف ہاتھ میں کچھ آنا چاہئے تھا ، لیکن اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھ کرمسلم لیگ ن کو کیا سوجھی تھی جس کیلئے اپنی عوامی مقبولیت اور نظریہ یا سیاسی موقف کو بالائے طاق رکھ دیا؟

اگر یہی رویہ اور انداز سیاست کرنا تھا تو اول 2013 کے بعد پنگا لینے کی ضرورت کیا تھی ، اگر بعد میں تھک کر ذہن بدل دیا تو پھر بھی نومبر سے نہیں گھبرانہ چاہئے تھا کیونکہ جو بھی تعیناتی ہوتی وہ ایسی تنخواہ پر بخوشی اآپکو نوکری دے دیتی ۔

یہ قومی اور ریاستی دلاسا کچھ زیادہ محسورکن اور کارگر نہیں لگتا۔ کیونکہ یہ نام نہاد قومی مفادات ، جو ہمارے ہاں ذیادہ تر تصوراتی ہیں، کہ اظہار، تشکیل و تعریف میں نہ کھبی عوام سے پوچھا گیا ہے اور نہ آپ سے۔ اس پر جس کی اجارہ داری ہے وہ اپنے آپکو اس کے اور ریاست کے محافظ سمجھتے ہیں اور آپ لوگ اس کے لئے خطرہ ہیں۔ جتنی بھی تباہی ماضی یا حال میں ہوئی ہے یہ اسی قومی اور ریاستی مفادات کے تحفظ کے نام پر ہوئی ہے۔ لیکن وہ ایک دفعہ پھر آپ نے کئیے کے قیمت چکانے سے بچ گئیں۔ اس طوق کو اپنے گلے میں ڈالنے کے عوض کچھ سیاستدانوں کو کرسی اور کچھ مفادات مل گئے لیکن عوام کی قیمت پر۔

باقی طاقت کے سر چشمہ عوام اور ووٹ کو عزت دو 35 پنکچرز کیطرح سیاسی نعرے تھے اور نعرے نہ وعدے ہوتے ہیں اور نہ نظریہ۔


طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔