پولیس کا لاپتہ بلوچ طلبہ کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے والی خواتین پر تشدد

پولیس کا لاپتہ بلوچ طلبہ کی رہائی کے لئے احتجاج کرنے والی خواتین پر تشدد
کراچی پولیس نے سندھ اسمبلی کے باہر لاپتہ افراد کے رہائی کے لیے احتجاج کرنے والے خواتین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

اس سے قبل سندھ پولیس نے بلوچ مظاہرین کو سندھ اسمبلی کی طرف بڑھنے نہیں دیا۔ خیال رہے کہ دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کو کراچی میں حکام کے ہاتھوں اٹھائے گئے 8 دن ہو چکے ہیں۔

گذشتہ روز بھی کراچی یونیورسٹی کے دو بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرہ کئے گئے تھے۔

https://twitter.com/Aadiiroy2/status/1536382113636704259?s=20&t=PYxt4E0q_tPSGr34D-WKPQ

کراچی پریس کلب کی سامنے احتجاجی دھرنا تیسرے روز احتجاجی مظاہرے میں تبدیل ہوگیا تھا جس میں ۔ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی تھئ۔

مظاہرین نے کراچی پریس کلب سے سندھ اسمبلی تک مارچ کرنے کی کوشش کی تاہم سندھ پولیس نے مظاہرین کو فوارہ چوک کے مقام روک دیا، جہاں مظاہرین نے دھرنا دے دیا۔

بالاخر مظاہرین تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے سندھ اسمبلی کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ جہاں سندھ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی۔

https://twitter.com/Rabail26/status/1536380639250882560?s=20&t=1erQw2qIxzT-_yYmmgolJQ

احتجاجی مظاہرہ لاپتہ طلبا کے لواحقین کی اپیل پر کیا گیا تھا۔ مظاہرے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ترقی پسند طلبا تنظیموں کی حمایت حاصل تھی۔ مظاہرین نے کراچی یونیورسٹی سے لاپتہ ہونے والے دونوں طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ 7 جون 2022 کو بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے دو بلوچ طلبہ کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا۔ کراچی کے علاقے مسکن چورنگی میں واقعہ گھر پر چھاپہ مارکر دودا بلوچ ولد الہی بخش اور اس کے ڈیپارٹمنٹ فیلو غمشاد بلوچ ولد غنی بلوچ کو خفیہ اداروں اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کر دیا ہے۔ دودا بلوچ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی میں تیسرے سیمسٹر، غمشاد بلوچ پانچویں سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ دودا بلوچ کا تعلق ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے ہے جبکہ غمشاد بلوچ کا ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے۔

https://twitter.com/Rabail26/status/1536381925912354818?s=20&t=0BSbmP8qU7Xh0Ic30WMlYw

مظاہرین کا کہنا ہے کہ دونوں بلوچ طلبا تاحال سیکیورٹی ادارے کے پاس ہیں۔ انہوں نے حساس اداروں پر یہ الزام لگایا کہ وہ کراچی میں بلوچوں کو ماورائے قانون اٹھا رہے ہیں اور سرکاری ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اور کراچی میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو نشانہ بنارہے ہیں۔

https://twitter.com/IhteshamAfghan/status/1536381034291404800?s=20&t=Pq9TEpxVOYvYL2v9cLvGsA

مظاہرین نے کراچی سے بلوچ طلبا کو اغوا کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ مظاہرین نے سندھ حکومت کو بلوچ دشمن قراردیتے ہوئے کہاکہ بلوچ طلباء کے اغواء میں سندھ حکومت برابر کے شریک ہیں۔ مقررین نے کہا کہ زرداری حکومت بلوچ طلبا کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے۔

https://twitter.com/FawadHazan/status/1536341422202564610?s=20&t=973QFdt2fuespI50mHn2Lw