قبائلی اضلاع کی ترقیاتی سکیموں میں اربوں روپے کے غبن کا انکشاف

قبائلی اضلاع کی ترقیاتی سکیموں میں اربوں روپے کے غبن کا انکشاف
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریاستی و سرحدی امور کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی پی ڈبلیو ڈی ظہیر وڑائچ نے کہا ہے کہ قبائلی اضلاع کی ترقیاتی سکیموں میں رقوم غیر قانونی طور پر پیشگی ادا کی گئیں۔ فرائض سے غفلت کرنے پر افسران کو معطل کیا گیا ہے۔

اجلاس سینیٹر ہلال الرحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ میں ہوا- سینیٹرز بہرہ مندخان تنگی، دوست محمد، شمیم آفریدی، دنیش کمار، حاجی ہدایت اللّہ خان، سید محمد صابر شاہ کے علاوہ ڈی جی نیب بریگیڈئیر (ر) فاروق ناصر اعوان، ڈی جی پی ڈبلیو ڈی ظہیر وڑائچ، جوائنٹ سیکریٹری سیفران اور دیگر متعلقہ حکام نے کمیٹی اجلاس میں شرکت کی۔

کمیٹی میں قبائلی ضلع مہمند میں کنٹریکٹر سے 38 کروڑ 47 لاکھ روپے کی واپسی، 10 روز میں قومی خزانے میں جمع کرانے کا معاملہ زیر غور آیا-۔ ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے معاملے پر کمیٹی ارکان کو بریفنگ دی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کارروائی شروع کی لیکن نیب نے معاملے کو خود اٹھا لیا اور اکائونٹس کو منجمد کردیا ہے۔ جتنی ریکوری کرنی تھی اس سے زیادہ اکائونٹس میں منجمد ہو گئے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان پیسوں کو ریکور کرنا اب لازمی ہے کیونکہ ہائوس کے اندر یہ رپورٹ جمع ہو چکی ہے۔ ڈی جی نیب نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کو پیسے جمع کرانے کا کہا لیکن ان کا عملہ تعاون نہیں کر رہا اور نہ ہی ہی اے سی اور نہ ایکسین پیش ہو رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈی جی نیب کے پاس 17 گریڈ سے اوپر افسران کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اب نیا قانون بن گیا ہے۔ نئے چیئرمین نیب کی تقرری کے بعد ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے یقین دہانی کارروائی کہ اس معاملے پر میری مکمل سپورٹ اس کمیٹی کے ساتھ ہے۔ ڈی جی نیب نے کہا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے حکام نے پیسہ نکلوانے کی کوشش کی۔ ڈی جی پی ڈبلیو ڈی نے کہا کہ یہ تمام رقم عدالت کے احکامات پر منجمد ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ رقم نکلوائی گئی ہے۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے بتایا کہ تمام رقوم غلط طریقے سے کنٹریکٹر کو ادا کی گئی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ تو صرف ضلع مہمند ہے۔ باجوڑ، خیبر، دیر، سوات ، چترال میں بھی یہی معاملہ ہے۔

سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے بتایا کہ چارسدہ میں ایک ارب روپے کا گھپلا ہے۔ اس کے علاوہ 14 ارب روپے سے زائد کی خورد برد کی گئی ہے۔ سینیٹر دنیش کمار کا کہنا تھا کہ کنٹریکٹر کہہ رہے ہیں کہ رقم واپس کرنے کو تیار ہیں۔ پاک پی ڈبلیو ڈی لینے کو تیار نہیں ہے-

ڈی جی نیب نے کہا کہ ہمیں تحریری طور پر لکھ کر دیں، ہم فنڈز واپس خزانے میں جمع کریں گے، ہم غیر منجمد کر دیں گے۔ مہمند ہی نہیں، ضلع خیبر میں بھی پاک پی ڈبلیو ڈی نے بڑی کرپشن کی ہے۔

معاملے پر بحث کے بعد چیئرمین کمیٹی نے پاک پی ڈبلیو ڈی کے چیف انجینئر کو ورک آرڈر منسوخ کرنے کی ہدایت کی۔ چیف انجینئر نے کہا کہ وہ ورک آرڈر منسوخ نہیں کر سکتے جس پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر آپ نے دو دن میں ورک آرڈر کیسے جاری کیا۔ چیف انجینئر نے بتایا کہ قانون کے مطابق ورک آرڈر جاری کیا گیا ہے۔ پیپرا حکام کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ورک آرڈر 15 دن میں جاری کرنا ہوتا ہے۔

ڈی جی نیب نے کہا کہ دو کنٹریکٹرز کو بلایا جس میں ایک مولوی اور ایک بی اے کا طالب علم تھا۔ ان کنٹریکٹرز میں صلاحیت ہی نہیں، یہ کسی اور کی ایما پر کام کر رہے ہیں۔ ہم ایکسین کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ کمیٹی نے معاملے پر نیب کو انکوائری جاری رکھنے اور ضلع مہمند کے تمام ورک آرڈر منسوخ کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

ڈی جی پاک پی ڈبلیو ڈی نے بتایا کہ پاک پی ڈی ڈبلیو کے منجمد فنڈز 30 جون کو غیر موثر ہو جائیں گے، جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس پر آپ کو آئندہ چند دن میں وزیراعظم دفتر سے ہدایات مل جائیں گی۔

چیئرمین کمیٹی کے سوال پر ڈی جی پاک پی ڈبلیو ڈی نے بتایا کہ ضلع باجوڑ میں کل 8 کروڑ روپے کی رقم سائٹ وزٹ کرنے کے بعد ریلیز کی گئیں۔ یکسئین باجوڑ نے بتایا کہ کسی بھی کنٹریکٹ میں 20 فیصد ایڈوانس موبلائزیشن کے تحت ریلیز ہو سکتی ہے۔ ہم نے 20 فیصد ایڈوانس، منصوبے پر امور طے ہونے پر دیا-

چیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ ٹینڈر کب اوپن ہوئے، پندرہ دن کا انتظار ہوا کہ نہیں؟ سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ کنڑیکٹ 15 مارچ کو منظور ہوا اور 15 مارچ کو خط بھی جاری ہوگیا۔ سینیٹر دوست محمد خان نے کہا کہ باجوڑ کے کام کو نہ روکا جائے، انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ جس پر ڈی جی نیب نے کہا کہ باجوڑ کا کام جاری ہے، ہم اس میں رکاوٹ نہیں ڈال رہے۔

ایکسئین باجوڑ نے ہوشربا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ کچا روڈ، 60 لاکھ، پکا روڈ 80 لاکھ فی کلومیٹر پڑتا ہے۔ باجوڑ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں 25، 30 کروڑ لگا تو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ چیئرمین کمیٹی نے بتایا کہ ضلع خیبر میں 70 کروڑ روپے مختص ہوئے، 30 کروڑ، پھر 20 کروڑ، 17 کروڑ روپے غائب ہوئے۔

ڈی جی پی ڈبلیو ڈی ظہیر احمد وڑائچ نے ضلع خیبر کے ترقیاتی امور پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سال 2021ء، 2022ء میں 23 کروڑ روپے ادائیگی کی گئی۔ اس کے علاوہ 17 کروڑ روپے سمیت 52 کروڑ روپے کی ادائیگی ہوئی۔

چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا 7 روز میں 70 کروڑ میں 52 کروڑ روپے کیسے ایڈوانس پیپمنٹ کی گئی؟ یہ کرپشن نہیں تو اور کیا ہے- ڈی جی پاک پی ڈبلیوڈی نے اعتراف کیا کہ یہ غلط ہوا ہے۔ سات روز میں ایڈوانس ادائیگی نہیں ہو سکتی۔

کمیٹی اراکین نے ڈی جی پی ڈبلیو ڈی سے استفسار کیا کہ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ غلط ہوا تو اس پر کیا ایکشن لیا آپ نے؟ جس پر ڈی جی نے بتایا کہ ایکسیئن کو معطل کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس سے بہتر ہے آپ کے فنڈز قومی خزانے میں واپس جائیں، کرپشن کی نظر نہ ہوں۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر رولنگ دی کہ ضلع خیبر میں تمام فنڈز/ ایڈوانس پیمنٹ قومی خزانے میں واپس منتقل کیے جائیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیراعظم کو اس ساری صورتحال پر خط لکھیں گے کہ وہ جان سکیں کہ ان ضم شدہ اضلاع میں کیا چل رہا ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔