سوات ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت، کیا عوامی بیانیہ تاحال عمران خان کے ساتھ ہے؟

سوات ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت، کیا عوامی بیانیہ تاحال عمران خان کے ساتھ ہے؟
حال ہی میں اقتدار کے ایوانوں سے باہر ہونے والی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے۔ سوات کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 7 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار 17 ہزار 395 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔

حلقے کے تمام 124 پولنگ سٹیشنز کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے حاجی فضل مولا 17 ہزار 395 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں عوامی نیشنل پارٹی کے حسین احمد 14 ہزار 604 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ضمنی انتخاب میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 183308 تھی مگر ضمنی انتخاب میں صرف 33573 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے مردوں کی جانب سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 27553 رہی جبکہ خواتین نے 6020 ووٹ کاسٹ کیے۔ ووٹ ڈالنے کی کل شرح 17.85 فیصد رہی۔

واضح رہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے امجد ملک نے کامیابی حاصل کی تھی۔ مگر وہ دو حلقوں سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس لئے اس نشست کو خالی کیا گیا اور بعد میں ضمنی انتخاب میں عوامی نیشنل پارٹی کے وقار احمد کامیاب ہوئے مگر وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔

اس الیکشن میں دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے کیوں حصہ نہیں لیا؟

عوامی نیشنل پارٹی جو کہ اس وقت متحدہ اپوزیشن کا حصہ بھی ہے اور اطلاعات کے مطابق انھوں نے کچھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرکے ان کو اپنے امیدوار کھڑے نہ کرنے پر آمادہ کیا تھا جس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے۔ دوسری وجہ اے این پی امیدوار کی خاندان کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں تھیں جس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے۔

اے این پی کی شکست کی وجوہات کیا تھیں؟

پشاور میں مقیم صحافی شمس مہمند نے سوات الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ دراصل یہ مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت اور مقامی امیدوار کے درمیان تھا کیونکہ نہ اپوزیشن جماعتوں نے اور نہ ہی اے این پی کی لیڈرشپ نے اپنے امیدوار کو صحیح طرح سپورٹ کیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اے این پی قیادت نے سوات میں اپنے امیدوار کے لیے کوئی مہم نہیں چلائی جس کی وجہ سے ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں عوامی نیشنل پارٹی اگر اپنے امیدوار کو سپورٹ کرتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ دوسری وجہ عوام کی عدم دلچسپی نے بھی اس الیکشن کے نتائج پر اثر ڈالا کیونکہ ووٹ ڈالنے کی شرح 17 فیصد تھی۔

سوات میں مقیم صحافی شیرین زادہ کہتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں ہیں۔ لوگ ہمدردی کی بنیاد پر بھی اس خاندان کو ووٹ دیتے ہیں۔ اے این پی لیڈرشپ کی جانب سے اپنے امیدوار کے لئے مہم نہ چلانا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ الحاق شکست کی وجہ بنی۔

پی ٹی آئی کی جیت کی وجوہات کیا تھیں؟

صحافی شیرین زادہ اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں کہ عمران خان کے امریکی مخالفت بیانیے نے اس جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی جب وفاق میں حکومت میں تھی تو بلدیاتی انتخابات میں ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن دوسرے مرحلے میں وہ جیتنے میں کامیاب ہوئے کیونکہ عمران خان کا امریکی مخالف بیانیہ بڑا مقبول ہوا۔ وہ کہتے ہیں ماضی کی حکومتوں میں اتنے ترقیاتی کام کبھی اسی حلقے میں نہیں ہوئے جتنے تحریک انصاف کے دور میں ہوئے اور یہ بھی جیت کی ایک وجہ بنی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔