حمزہ شہباز نے عدالت کے حکم پر حلف اٹھایا، اب اچانک ووٹنگ غیر قانونی قرار

حمزہ شہباز نے عدالت کے حکم پر حلف اٹھایا، اب اچانک ووٹنگ غیر قانونی قرار
توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ روز نیا آئین لکھا جا رہا ہے۔ روز نیا قانون پڑھایا جا رہا ہے۔ جب حمزہ شہباز وزیراعلٰی بن رہے تھے تو سب کچھ ہائیکورٹ کے حکم سے ہوا۔ اب اچانک فیصلہ آتا ہے کہ ووٹنگ غیر قانونی تھی۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں پنجاب کی وزارت اعلٰی کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کی پولنگ غیر قانونی ہے تو پھر ان 25 اراکین کو ڈی سیٹ کیوں کیا؟ ایسے تو پھر انہوں نے کوئی جرم ہی نہیں کیا۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے حلف کے لیے دائر تیسری درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ہدایت دی تھی کہ وہ حمزہ شہباز سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روز نیا آئین لکھا جا رہا ہے۔ روز نیا قانون مجھے پڑھایا جا رہا ہے۔ ہم نے 73 کا آئین بڑی مشکل سے یاد کیا تھا۔ اب گھنٹوں میں آئین لکھا جا رہا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ضمنی انتخابات ہو جائیں، پھر وزیراعلی کا انتخاب ہوگا۔

پروگرام میں شریک مہمان عرفان قادر نے بھی اس معاملے پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ہوئی کہ منحرف اراکین کا ووٹ کائونٹ نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے خود ہی آئین لکھنا شروع کر دیا ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا ویو ٹھیک تھا اور اگر اس کو فالو کیا جاتا تو کل لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ آتا۔ حمزہ شہباز کا انتخاب بالکل آئین کے مطابق تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں کسی کو سن رہا تھا کہ چیف جسٹس نے آج یہ بات کی ہے کہ اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم ایسا آرڈر پاس کریں گے کہ دونوں کا نقصان کر دیں گے۔ یہ دھمکی دی گئی تھی کہ ہماری بات مانی جائے، ورنہ کسی ایک کا نقصان ہو جائے گا۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے۔

عمران یعقوب خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شاید عدالت نہیں جرگے کی کارروائی چل رہی ہے۔ عدالتی کارروائی اور جرگے کی کارروائی میں فرق ہونا چاہیے۔ عدالت نے وہ کام کرنا ہوتا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے تو ہمیشہ یہ سنا تھا کہ ججز نہیں بولتے، ان کے فیصلے بولتے ہیں، اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ 32 سال ہو گئے مجھے صحافت میں آج تک میں نے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا ہوتے نہیں دیکھا چاہے وہ بنانا رپبلک ہی کیوں نہ ہو کہ پہلے وقت دیا جائے کہ آپ بندے اکٹھے کر لیں، پھر الیکشن ہوگا۔

خیال رہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی جانب سے وزیراعظم کو بھجوائے گئے استعفے کے بعد سے ہی سیاسی بحران تھا۔ نئے قائد ایوان کے انتخاب کے لیے 6 اپریل کو اجلاس بلایا گیا جسے سپیکر پنجاب اسمبلی نے 16 اپریل تک ملتوی کر دیا تھا۔

16 اپریل کو اجلاس کے دوران شدید ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ پولیس پنجاب اسمبلی میں داخل ہو گئی تھی اور اس دوران اراکین اسمبلی اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا تھا۔

اجلاس شروع ہوتے ہی تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین نے ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کر دیا تھا جس کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی اس تصادم کے دوران مبینہ طور پر زخمی ہو گئے تھے۔

بعد ازاں ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر قائد ایوان کا انتخاب کرایا تھا، جس میں حمزہ شہباز شریف 197 ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے تھے۔

تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی نے انتخابی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ بعد ازاں گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی قائد ایوان کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حمزہ شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا تھا۔