صدر مملکت کا صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار

صدر مملکت کا صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے صحافیوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کے بڑھتے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے واقعات معاشرے میں موجود عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 19 میں دی گئی ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ صحافیوں اور میڈیا والوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور ساتھ ہی ساتھ سیاست دان بھی صحافیوں کو نامعلوم اور بددیانت عناصر کے عتاب سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ صدر نے وزیر اعظم سے کہا کہ وہ انہیں آئین کے آرٹیکل 46 کے تحت ان کی جانب سے اٹھائے گئے اصلاحی اقدامات سے آگاہ رکھیں۔

انہوں نے زور دیا کہ جمہوری ملک ہونے کے ناطے پاکستان میں دانشوروں اور صحافیوں پر ظلم و ستم کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ صدر نے اپنے خط میں لکھا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 41 کے مطابق صدر کو تمام شہریوں کے لیے آزادی اظہار اور منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی کوشش کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومتوں سے اس طرح کا منفی موازنہ کرنا ملک کو ترقی اور مثبت سمت میں لے جانے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں بد تری کا جواز بن جائے گا۔

ڈاکٹر عارف علوی نے اس بات پر زور دیا کہ گذشتہ حکومتوں کے اقدامات یا بے عملی کو اسی طرح کی غیر قانونی خلاف ورزیوں کو دہرانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور اس طرح کے اقدمات کا جواز پیش کرنے کے لیے سابقہ حکومت کے کردار کا مؤقف ناقابل قبول اور عذر لنگ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آزادانہ رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف دہشت کا راج ہے۔

صدر مملکت نے کہا ہے کہ معروف صحافیوں کے خلاف اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات سے عدلیہ کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے جب کہ ایک دائرہ اختیار میں ریلیف فراہم کیا جاتا ہے تو دوسرے دائرہ اختیار میں ہراساں کرنے کی نیت سے مقدمات دائر کردیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اسی طرح لاہور میں کئی عینی شاہدین کی موجودگی میں کالم نگار ایاز امیر پر نامعلوم افراد نے رش کے اوقات میں سڑک پر حملہ کیا، ان کی تذلیل کی اور زخمی کر دیا اور اسی طرح سمیع ابراہیم، ارشد شریف، صابر شاکر، معید پیرزادہ اور عمران ریاض خان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کرائی گئیں۔

ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے مصروف علاقے سے دن دیہاڑے اغوا کیا گیا، اسد علی طور اور ابصار عالم کو نامعلوم افراد نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔

صدر نے صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) اور ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹس کا بھی حوالہ دیا جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں 1992 سے 2022 تک 96 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور الزام لگایا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں پر بغاوت اور غداری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ریاست کے طاقتور عناصر کے خلاف اختلاف رائے اور تنقید کو دبانے کے لیے تشدد کے چند اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر مملکت نے کراچی میں سماجی کارکن ناظم جوکھیو اور کے ٹی این اور روزنامہ کاوش کے صحافی عزیز میمن کا نام لیا، جنہیں ان کے آبائی شہر محراب پور، سندھ کے قریب ہی قتل کیا گیا۔

انہوں نے خط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان فریڈم آف پریس انڈیکس 2022 میں 157ویں نمبر پر ہے جو بہت پست اور نچلی سطح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)، ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو)، ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی) اور انٹرنیشنل کمیشن جیورسٹس (آئی سی جے) نے اپنی رپورٹس میں صحافیوں کو ہراساں کرنا، دھمکیاں دینا اور جسمانی تشدد کو مذکورہ انڈیکس میں پاکستان کی مایوس کن پوزیشن کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اس طرح کے واقعات معاشرے میں موجود عدم برداشت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں، اس طرح کے اقدامات نہ صرف دنیا کی نظروں میں آکر ہمارے ملک کی ساکھ، اس کے تشخص کو داغدار کرتے ہیں بلکہ ان کے جمہوریت کے مستقبل کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔