قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز میں مبینہ کرپشن، تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم

قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز میں مبینہ کرپشن، تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز میں مبینہ کرپشن اور بے ضابطگیوں کے تحقیقات کے لیے نیب اور ایف آئی اے پر مشتمل مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے۔

تفصیل کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈز (SDGs) میں مبینہ کرپشن اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے کے لیے نیب اور ایف آئی اے پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سینیٹر شبلی فراز کی جانب اس معاملے کو کمیٹی میں لانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بات نہیں ہو سکتی لیکن چیئرمین کمیٹی اور دیگر ممبران کی حمایت پر بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

سینیٹر شبلی فراز اور چئیرمین پی اے سی نور عالم خان میں اس معاملے پر شدید تکرار ہوئی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے چیئرمین سینیٹر ہلال الرحمان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے قبائلی اضلاع کو ساڑھے تین سال میں اربوں روپے ایس ڈی جیز کی مد میں جاری کئے، لیکن گذشتہ سال ہمیں معلوم ہوا کہ ان فنڈز میں خورد برد کی گئی ہے۔

سینیٹر ہلال الرحمان نے کمیٹی کو بتایا کہ ضلع باجوڑ میں 52 کروڑ اور پھر 14 کروڑ سے زائد رقم دو سے تین روز میں خلاف قانون جاری کی گئی اور تمام فنڈز ایک ایک اور دو دو دن کے فرق سے جاری کی گئی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ضلع مہمند اور خیبر میں بھی ترقیاتی کام شروع ہونے سے پہلے ایک ارب سے زائد کی رقم جاری کی گئی لیکن یہ تمام فنڈز ایک ایسے وقت میں جاری کئے گئے جب ترقیاتی سکیمز شروع ہی نہیں ہوئے تھے لیکن پیشگی فنڈز جاری کئے گئے ہیں۔

سینٹر ہلال الرحمان نے کہا شبقدر جو خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کا علاقہ ہے وہاں پر بھی آخری دنوں میں ایک ارب کی لگ بھگ فنڈز جاری کئے گئے۔ پی ڈبلیو ڈی کا ادارہ کسی بھی طرح سے تعاون کیلئے تیار نہیں تھا لیکن پھر ہم نے نیب کو کہا اور انھوں نے ریکارڈ اٹھایا اور ہمیں کچھ تفصیلات مل گئی۔ ہمارے پاس اختیارات نہیں تھے اس لئے ہم نے معاملے کو پی اے سی کو بھیجا۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب نیب نے تحقیقات شروع کہ تو پانچ سے چھ ارب کی رقم معاذ نامی ٹھیکدار کے اکاؤنٹس میں جمع کی گئی جو ابھی گریجویشن کا طالب علم ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قومی خزانے کو لوٹنے سے بچایا جائے اور اس معاملے کی تحقیقات کی جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کے مطالبے پر قائم مقام چیئرمین نیب نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ پشاور ہیڈ کوارٹرز میں آ چکا ہے اور اس کی تحقیقات جاری ہے۔