غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں، تھوڑی سی تنقید پر ایکشن لینا فوج کو نقصان دے رہا ہے: عمران خان

غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں، تھوڑی سی تنقید پر ایکشن لینا فوج کو نقصان دے رہا ہے: عمران خان
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ تھوڑی سی تنقید پر ایکشن لینا فوج کو نقصان دے رہا ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان فاصلے سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔ غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں۔

اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ لیڈروں کے لیے یو ٹرن بہت ضروری ہوتے ہیں، کسی بھی لیڈر کو اپنے آن کو عقمل کل نہیں سمجھنا چاہیے، بہتر ہوتا ہے کہ اپنی غلطی جان کر اسے ٹھیک کیا جائے، آج بھی ایک راستہ ہے۔ یہ سیٹ اپ جتنی دیر چلے گا ملک کمزور ہوگا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اسٹییبلشمنٹ ملک میں موجودہ سیٹ اپ کوئی حمایت کررہی ہے، بند کمروں میں فیصلے ہوتے ہیں، پہلے پلان اے بنتا ہے پھر ان ہی بند کمروں میں پلان بی بھی بنتا ہے، جب فیصلے ایسے ہوں گے تو کیسے یہ ٹھیک ہوں گے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ غلطیاں سب سے ہوجاتی ہیں، تعمیری تنقید ضروری ہے، تھوڑی سی تنقید پر ایکشن لینا فوج کو نقصان دے رہا ہے، معلومات رک نہیں سکتی، یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جتنی مرضی کوشش کی جائے سوشل میڈیا کو کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ ہم کبھی کمزور فوج برداشت نہیں کرسکتے، طاقتور فوج پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہے، عوام اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں، یہ بڑھتے رہے تو اس سے فوج اور پاکستان کو نقصان ہوگا۔

عمران خان نے کہا کہ ملک میں توازن ہونا چاہیے، جب فوجی حکومت جاتی تھی تو سول حکومت فوج کو اجازت دیتی تھی کہ وہ جو مرضی کرے کیونکہ وہ کمزور ہوتے تھے، سول حکومت کے پاس اخلاقی قوت ہوتی ہے اور فوج کے پاس طاقت ہوتی ہے۔ جب آپ پر مقدمات ہوتے ہیں تو اداروں کو مزید جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ملک میں اب تک توازن نہیں آیا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی سفارت خانے میں ان لوگوں کو بلایا جو ہم سے خوش نہیں تھے یہاں تک کہ عاطف خان کو بھی محمود خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے بلایا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان چوتھا ملک ہے جو دیوالیہ ہوسکتا ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ اس وقت فیصلے ٹھیک کئے جائیں، سائفر کو دبانےکی کوشش کی گئی، کہا گیا ایسے سائفر آتے رہتے ہیں، اس طرح کے سائفر بنانا ریپبلک میں بھی نہیں آتے، امریکی مراسلے کی تحقیقات ہونی چاہئیں، کیا دنیا ایک منتخب وزیر اعظم کو اس طرح سے ہٹایا جاتا ہے؟۔

عمران خان نے کہا کہ اقتدار میں آکر میں نے آرمی چیف اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی سے کافی بات کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم دہشت گردوں کو عدالتوں میں پیش کرتے ہیں تو ان پر الزام ثابت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے، یہ چھوٹ جائیں گے تو پھر دہشت گردی میں ملوث ہوں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ ملک میں کوئی لاپتہ نہ ہو، کم سے کم ان کے رشتے داروں کو تو معلوم ہو کہ وہ کہاں ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، میں نے کبھی میڈیا کو پیسے دینے کی کوشش نہیں کی، میر ے حکم پر کبھی کسی صحافی کو نہیں اٹھایا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لئے 2003 سب سے پہلے میں نے مظاہرہ کیا، اقتدار میں آنے سے پہلے فوج کا نکتہ نظر نہیں معلوم تھا۔

سیمینار سے خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں آمروں نے اداروں کو کمزور کیا، ڈکٹیٹر خود کو جمہوری بنانے کی کوشش کرتا ہے تو ادارے تباہ کر دیتا ہے۔ مغربی ممالک میں جمہوریت مستحکم ہے، پاکستان میں طاقتور شخص قانون سے بالاتر ہے، اس ملک پر 32 سال 2 خاندانوں کی حکمرانی رہی۔