فوج پر تنقید: شہباز گل گرفتار لیکن باقی سیاستدان آزاد، کیا یہ دوہرا معیار ہے؟ سوشل میڈیا پر بحث

فوج پر تنقید: شہباز گل گرفتار لیکن باقی سیاستدان آزاد، کیا یہ دوہرا معیار ہے؟ سوشل میڈیا پر بحث
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی غداری کیس میں گرفتاری پاکستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ دیگر جماعتوں کے رہنما اور قائدین بھی تو فوج پر تنقید کرتے ہیں تو ان کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟

سپریم کورٹ سے نااہل ہونے اور سزا پانے کے بعد جب نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا تو انھوں نے عوامی رابطہ مہم کے دوران اسٹیبلشمنٹ پر کڑی تنقید کی تھی اور فوج کو بطور ادارہ آئین کی پاسداری کرنے کی تاکید کی تھی۔

سوشل میڈیا پر ان کا وہ بیان بھی شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ اپنے بھائی شہباز شریف کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’گرفتار تو عاصم سلیم باجوہ کو ہونا چاہیے تھا لیکن گرفتار شہباز شریف کو کر لیا گیا۔ عاصم سلیم باجوہ نے اربوں روپے کیسے بنا لیے؟ اس کا حساب کسی نے نہیں پوچھا؟‘

اسی طرح خواجہ آصف کا ماضی میں قومی اسمبلی میں دیا گیا ایک بیان بھی سوشل میڈیا پر کافی دیکھنے کو ملا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے سیاچن ہارا، ہم نے پوچھا اُن سے انھوں نے کارگل ہارا، ہم نے پوچھا۔‘

ایسے میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا شہباز گل کا بیان بھی اسی تنقید کے زمرے میں آتا ہے اور کیا باقی رہنماؤں پر بھی ایسے کیسز بن سکتے تھے؟

بی بی سی اردو سے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ ان بیانات کا پس منظر الگ تھا۔ آپ فوج کے بجٹ، اس کی سیاست میں مداخلت اور معاشی کاموں پر تنقید کریں جو کہ ہم سب کرتے ہیں۔ لیکن دوسرا یہ ہے کہ ایک ادارہ ہے جو چلتا ہی ڈسپلن پر ہے، اس کے اہلکاروں کو کہا جائے کہ وہ افسران کے احکامات نہ مانیں۔

نسیم زہرہ نے کہا کہ میں نے شہباز گِل کو سنا جس میں وہ کہتے ہیں کہ آپ جانور نہیں انسان ہیں، اپنی عقل استعمال کرنے کی کوشش کریں۔۔۔ میں بالکل واضح ہوں کہ یہ بہت خطرناک ہے اور اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ تو آپ صاف الفاظ میں ان کو بغاوت کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے بھی اس معاملے پر بات کی اور کہا کہ سیاست دان قومی اسمبلی کے اندر جو بھی کہتے ہیں اس کو تو قانونی طور پر کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ کے اندر جو تنقید ہوتی ہے اس کے خلاف تو کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی، وہاں کہی گئی کوئی بھی بات چاہے کسی کے بھی خلاف ہو، کتنی ہی سخت ہو اس پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں اگر مختلف سیاست دانوں نے پارلیمان کے علاوہ کسی اور فورم پر فوج کیخلاف بات کی تھی تو اُن کو اس وقت نوٹس لینا چاہیے تھا، وہ مقدمات کر سکتے تھے۔

سہیل وڑائچ کا بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر گرفتاریاں ملک کے لیے اچھی نہیں، اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو چیز قانون کے خلاف ہے، اس پر تو ٹھیک ہے لیکن ہر ایک کو غدار اور ہر ایک کو کافر کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ پہلے پہلے لیڈر شب پیان دیتی تھی، وہ احتیاط کرتی تھی۔ اب سوشل میڈیا پر اور ٹرولنگ کرنے والے بلا سوچے سمجھے بات کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا فوری سامنے خبر اور بیان لاتا ہے اور پھر ردعمل بھی فوری آتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے، نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جو فوج کی آئینی ذمہ داری کی حدود میں نہیں، اس پر تنقید کرنا تو 1947 سے ہے۔ اس تنقید سے تو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ بھری ہوئی ہے، شہباز گِل نے جو کچھ کہا وہ تو اُکسانا ہے، میرے خیال میں شہباز گل کے بیان اور ماضی کی تنقیدوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سینیٹر پرویز رشید بھی ان سیاستدانوں میں شامل ہیں جو فوج کے سیاست میں کردار پر کُھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’جمہوریت کے لیے جو ہماری جدوجہد ہے، اس کا پی ٹی آئی کی آج کل کی گفتگو سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں نے کبھی کسی کو میر جعفر، میر صادق، نیوٹرل، جانور ایسے الفاظ نہیں استعمال نہیں کیے۔ ہماری جدوجہد جمہوریت اور قانون، آئین اور پارلیمان کی بالا دستی کے لیے تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر مقدمے بنتے رہے ہیں۔ ہم نے جیلیں کاٹیں، میں نے چار مارشل لا میں جیلیں کاٹیں، لیکن ہم نے نہ ایسے الزام لگائے نہ شکایتیں کی تھیں۔ ہمارے نعرے تو یہ ہوتے تھے کہ ظلم کی دیوار کو ایک دھکا اور دو، جمہوریت کا سورج طلوع ہو گا، ہم یہ کہتے ہیں کہ بندوق کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے، ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کسی سے کہ تم میرے ہاتھ کی بندوق بن جاؤ۔‘

بشکریہ: بی بی سی اردو