اسرائیل اور ترکی کےدرمیان سفارتی تعلقات مکمل بحال ہوگئے

اسرائیل اور ترکی کےدرمیان سفارتی تعلقات مکمل بحال ہوگئے
اسرائیل اور ترکی نے برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم یائر لاپڈ نے اس سفارتی پیش رفت کو 'علاقائی استحکام کے لیے ایک اہم اثاثہ اور اسرائیل کے شہریوں کے لیے انتہائی اہم اقتصادی خبر' قرار دیا۔

یائر لاپڈ کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سفارتی پیش رفت کے نتیجے میں دونوں ممالک میں ایک بار پھر سفیر اور قونصل جنرلز تعینات کیے جائیں گے۔ یہ اعلان اعلیٰ حکام کے باہمی دوروں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مہینوں کی دو طرفہ کوششوں کے بعد کیا گیا۔

ترک وزیر خارجہ مولود جاویش اوغلو نے کہا کہ سفیروں کی واپسی 'دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کو انقرہ کے 'فلسطینی کاز سے دستبردار ہونے' سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔

مئی میں جایویش اوغلو 15 برسوں میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ترک وزیر خارجہ بن گئے، اس دورے کے دوران انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی قیادت سے بھی ملاقات کی۔

دو ماہ قبل اسرائیلی صدر آئزیک ہرزوگ کے انقرہ کے تاریخی دورے کے دوران ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ ان کی ملاقات 'ہمارے تعلقات میں ایک اہم موڑ' ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں 2008 میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کے بعد تناؤ شروع ہوا تھا۔ بعدازاں 2010 میں غزہ میں امداد لے کر ناکہ بندی کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کرنے والے ترکیہ کے بحری جہاز پر اسرائیلی حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کے بعد تعلقات منجمد ہو گئے۔

سال 2016 سے 2018 تک ایک مختصر مفاہمت جاری رہی، جب فلسطینیوں کے قتل پر ایک بار پھر سفیروں کو واپس بلا لیا گیا۔ سال 2018 سے 2019 تک غزہ کے 200 سے زائد شہریوں کو اسرائیلی فورسز نے سرحدی احتجاج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان جولائی 2021 میں آئزیک ہرزوگ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے عوامی سطح پر مفاہمت شروع ہوئی۔

اسرائیلی صدر نے کہا کہ تعلقات کی مکمل تجدید سے 'عظیم تر اقتصادی تعلقات، باہمی سیاحت اور اسرائیلی اور ترک عوام کے درمیان دوستی کو فروغ ملے گا'۔ تاہم دونوں کے مابین حالیہ برسوں میں سفارتی اختلافات کے باوجود تجارت جاری تھی اور ترکی اسرائیلی سیاحوں کے لیے ایک مقبول مقام بنا ہوا رہا۔

البتہ اسرائیل نے استنبول میں اپنے شہریوں کے خلاف قتل کی ایرانی سازش کا حوالہ دیتے ہوئے جون میں اپنے شہریوں کو وطن واپس آنے کی تنبیہ کی تھی۔ اس کے بعد یائر لاپڈ نے اس معاملے پر تعاون کے لیے انقرہ کا شکریہ ادا کیا تھا اور اسرائیلیوں نے دوبارہ ترکیہ میں اپنی تعطیلات گزارنا شروع کردیا تھا۔

اسرائیل ترکی کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے اپنے فیصلے پر علاقائی اتحادیوں کو پریشان کرنے کے حوالے سے الرٹ رہا ہے اور آئزیک ہرزوگ کو انقرہ کے دورے سے قبل قبرص اور یونان روانہ کیا گیا تھا۔

ترکی اس بات پر پر زور دے رہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے معمول پر آنے سے فلسطینیوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ جاویش اوغلو نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے، ہم فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گے۔

مغربی کنارے میں مقیم فلسطینی قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ، ترکیہ نے غزہ پر حکومت کرنے والے اسلامی گروپ حماس کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی کے صدر ایفرائیم انبار نے کہا کہ مبصرین کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ دو طرفہ تعلقات اتنے ہی اچھے ہوں گے جتنے وہ نوے کی دہائی میں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک طیب اردوان اقتدار میں ہیں ان کے اسلامی روابط کی وجہ سے ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف ایک خاص حد تک دشمنی رہے گی، مثال کے طور پر وہ حماس کی حمایت جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے 2007 سے غزہ کے 23 لاکھ باشندوں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔