چترال یونیورسٹی کہیں بنجر زمین پر بنائی جائے، کھڑی فصلیں برباد مت کریں: مقامی افراد کا مطالبہ

چترال یونیورسٹی کہیں بنجر زمین پر بنائی جائے، کھڑی فصلیں برباد مت کریں: مقامی افراد کا مطالبہ
چترال کے مضافاتی علاقے سین کے لوگوں نے اپنے حقوق کے لئے ایک ریلی نکالی اور گرم چشمہ روڈ پر پر امن جلسہ کیا جس کی صدارت مفتی عبد الحکیم نے کی۔ ان لوگوں نے بینرز اٹھائے ہوئے واک بھی کی۔ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جامعہ چترال کے لئے حکومت نے سید آباد کے مقام پر 166 کنال زمین پہلے سے خریدی ہوئی ہے مگر ابھی تک اس پر تعمیراتی کام شروع نہیں ہوا۔ مقررین نے کہا کہ سین ایک خوبصورت زرعی خطہ ہے جہاں ہر طرف لہلہاتی سرسبز فصلیں اور پھلدار درختوں کے باغات کھڑے ہیں۔ اگر چترال یونیورسٹی کے لئے اس زرعی زمین پر عمارت تعمیر کی گئی تو اس کی خوبصورتی بری طرح متاثر ہوگی۔

Chitral-Protest

جلسہ میں ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اس سرسبز زمین کو بچایا جائے یا پھر ان لوگوں کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کی قیمت ادا کی جائے۔ مقامی لوگوں نے حکومت سے اپنے جائز مطالبات میڈیا کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے بھی ٹیکنیکل کالج، زراعت دفتر، بجلی گھر، نہر اور سڑک کے لئے زمین دی ہے، اب ہمارے پاس صرف قبرستان اور زراعت کی زمین باقی ہے؛ اگر حکومت یہ بھی لے لے گی تو ہم کہاں جائیں گے؟

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جامعہ چترال کے لئے کسی ایسی زمین پر عمارت تعمیر کی جائے جو غیر آباد یا بنجر ہو اور کھڑی فصلوں کو اس مقصد کے لئے تباہی سے بچایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر حکومت لازمی ہماری زمین لینا چاہتی ہے تو ہمیں کم از کم مارکیٹ ریٹ کے مطابق زمین کی ادائیگی کی جائے۔

یہاں کی خواتین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا کام ہے غیر آباد زمین کو آباد کرنا نہ کہ سیاحتی مقام کو خراب کرنا۔ ہم اس زمین میں موجود پھلوں کو خشک کر کے اسے بیچتے ہیں اور اس سے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتے ہیں جس سے وہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔

Chitral land for university

مقامی لوگوں نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ سے بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ پورے پورے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس سیاحتی خوبصورت علاقے کو خراب کر کے ان کو نقل مکانی پر مجبور نہ کیا جائے۔ جلسے سے عنایت اللہ اسیر، ضیا شاہ، قاری نظام دروش، مفتی عبدالحکیم اور دیگر نے اظہار حیال کیا۔ اس جلسے میں ایک ایسا ضعیف العمر شخص بھی موجود تھے جو 1965 اور 1971 کی جنگ میں بھی شامل ہوئے اور جنگ کے دوران 1971 میں جنگی قیدی بھی بن کر ہندوستان میں قید بھی کاٹ چکے ہیں۔ ان کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ مجھے زمین دے نہ کہ مجھ سے زمین لے۔