ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں خونی سیلاب، متاثرہ لوگ امداد کے منتظر، صاف پانی کی شدید ضرورت

ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں خونی سیلاب، متاثرہ لوگ امداد کے منتظر، صاف پانی کی شدید ضرورت
ڈی آئی خان ڈویژن میں مون سون بارشوں نے جون کے مہینے سے 31 اگست 2022 تک تباہی کے ایسے گہرے نقوش چھوڑ دیے جس کا ازالہ شاید ہی ممکن ہو سکے۔ ڈیرہ ڈویژن کے پراوینشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی معلومات کے مطابق ڈویژن میں اب تک 44869 گھروں کو نقصان پہنچا ہے، جس میں 25898 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جب کہ 18971 جزوی طور پر تباہ ہیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈویژن میں اب تک 44 لوگ جاں بحق اور 120 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں، لیکن مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ضلع ٹانک میں پی ڈی ایم اے کے پاس مرنے والوں کی تعداد 3 ہے جب کہ یہ تعداد 6 بتائی جا رہی ہے۔

ضلع ڈی آئی خان میں سیلابیریلوں کی وجہ سے 27 لوگ جب کہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں 15 لوگ جاں بحق ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق ضلع ڈی آئی خان میں 24503 گھر، ٹانک میں 1380 گھر جب کہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں میں 15 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں۔

ڈی آئی خان میں ہزارہ پکہ اور مکڑ بارانی نالوں میں سیلابی ریلوں نے تحصیل پروا کا 75 سے 80 فیصد علاقہ متاثر کیا ہے۔ اس وقت تحصیل پروا میں ہنگامی صورتحال پر امداد کی ضرورت ہے۔ تحصیل پروا کے تحصیل میئر فخر خان نے نیا دور کو بتایا کہ امدادی کارروائیاں جاری ہیں لیکن اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے کہ ضلعی انتظامیہ کو متاثرہ افراد تک امداد پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ فخر خان نے بتایا کہ تحصیل پروا میں 12 ہزار گھر مکمل طور پر سیلاب میں بہہ گئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ہمیں امداد کی شدید ضرورت ہے، ہم ملک کے دوسرے اداروں این جی اوز اور مخیر حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر ہماری مدد کو پہنچیں۔



تحصیل پروا ہزارہ پکہ گاؤں کے 30 سالہ مدثر علی نے نیا دور کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے امدادی سامان کی تقسیم غیر منصفانہ ہے، جو لوگ امداد کےمستحق ہیں، وہ اب بھی بے سرو سامان ہیں، اور جو لوگ متاثرنہیں ہوئے اُن میں ٹینٹ اور دوسری اشیا تقسیم کی جارہی ہے۔ مدثر نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ہیضہ اور الرجی کی بیماریاں بھی بڑھ رہی ہے، لیکن متعلقہ صحت کیمپس میں دوایاں نہیں ملتی۔

اس حوالے سے جب نیا دور نے ڈی آئی خان کے اسسٹنٹ کمشنر فرحان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اپنی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن ڈویژن میں سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی کر دی ہے جسکی وجہ سے امداد پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر نے امدادی اشیا میں غیر منصفانہ تقسیم کے حوالے بتایا کہ لوگوں کی شکایات بجا ہیں کچھ علاقوں میں ایسے واقعیات سامنے آئے ہیں جہاں متاثرہ لوگوں کی امداد اُن تک نہیں پہنچ سکی لیکن ہماری کوشش ہےکہ مستحق لوگوں کو امداد پہنچے۔



انہوں نے کہا ڈویژن میں اس وقت لوگوں کو صاف پانی، راشن اور مزید خیموں کی شدید ضرورت ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ پاکستان کے مخیئر حضرات یا دوسرے ادارے ڈیرہ دویژن کے سیلاب زدگان کیلئے راشن، ٹینٹس اور خصوصی طور پر پانی مہیا کردیں تو بہتر ہوگا۔

پاکستان میں حالیہ سیلاب سے کروڑں لوگ متاثر ہوئے ہیں لیکن ڈیرہ ڈویژن میں سیلاب سے متاثرہ افراد امداد کے منتظر ہیں، پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈویژن میں 11 کیمپ بنے ہیں جن میں 2600 کے قریب متاثرہ خاندانوں کو امداد دی جا رہی ہے، باقی متاثرہ لوگ جگہ جگہ اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔

یاد رہے، ڈیرہ ڈویژن میں 9105 سے زائد جانور بھی سیلاب کی نظر ہوئے ہیں۔ ڈی آئی خان ڈویژن میں خونی سیلاب نے جہاں ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے وہاں 60220 ایکڑ زرعی زمین بھی تباہ کر دی ہے۔ پروا تحصیل میئر فخر خان نے نیا دور کو بتایا کہ سیلابی پانی نے گہرے نقوش چھوڑ دیے ہیں، لوگوں کی کھڑی فصلیں، مال مویشی سب سیلاب کی نظر ہوچکے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ڈیرہ ڈویژن میں سیلاب زدگان کیلئے امدادی کاروائیاں تیز کردیں۔

آصف مہمند کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہیں اور کلائمیٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی موضوعات سے متعلق لکھتے ہیں۔