اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے

اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے

اسلام آباد اور پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت 5 اعشاریہ 3 ریکارڈ کی گئی ہے۔


زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے زلزلے کا مرکز بھی افغانستان تھا اور یہ علاقہ افغانستان، تاجکستان کے بارڈر کے قریب تھا اور زلزلے کی گہرائی 218 کلو میٹر ریکارڈ کی گئی تھی۔


واضح رہے اس سے قبل رواں برس جون کے مہینے میں بھی اسلام آباد پشاور، ملتان، فیصل آباداور ایبٹ آباد سمیت مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔


دوسری جانب امریکی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں محسوس کیے گئے زلزلے کا مرکز افغانستان کا کوہ ہندوکش ریجن تھا۔


امریکی زلزلہ پیما مرکز کے مطابق آنے والے اس زلزلے کی شدت پانچ اعشاریہ 3 جبکہ اس کی گہرائی 10 کلومیٹر ریکارڈ کی گئی ہے۔


زلزلے کیوں آتے ہیں؟


زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ریکٹر اسکیل کیا ہے؟ زلزلے کی اقسام کیا ہیں؟ زلزلے میں کیا کرنا چاہیے؟ آئیے آپ کو ان باتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔


ساؤتھ کیرولائنا یونیورسٹی کے ایک ماہر جان ویڈیل کہتے ہیں کہ زمین کے اندر موجود چٹانی پرتیں مسلسل حرکت میں رہتی ہیں اور جب وہ اپنی جگہ سے کھسکتی ہیں تو ان کے کناروں پر شدید دباؤ پڑتا ہے اور جب یہ دباؤ ایک خاص سطح پر پہنچتا ہے تو وہ زلزلے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔


زلزلے کے جھٹکوں سے زمین کی سطح پر موجود چیزوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ عمارتیں اور دوسری تنصیبات گر جاتی ہیں۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ درخت اور بجلی کے پول زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ اگر متاثرہ علاقے میں دریا یا جھیلیں ہوں تو ان کی جگہ بدل سکتی ہے۔ پہاڑوں میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔


اگر زلزلے کا مرکز سمندر کی تہہ یا ساحلی علاقوں کے قریب ہو تو سمندری طوفان اور سونامی آ سکتے ہیں اور بپھری لہریں ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔


ہماری زمین کے بعض حصوں کے نیچے چٹانوں کی پرتیں اس نوعیت کی ہیں کہ ان میں نسبتاً زیادہ حرکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ان علاقوں میں زلزلے بھی کثرت سے آتے ہیں۔ بعض ملک اور علاقے زلزلوں کے زون میں واقع ہیں۔ ان میں نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، جاپان، روس، شمالی امریکہ میں بحرالکاہل کے ساحلی علاقے، وسطی امریکہ، پیرو اور چلی شامل ہیں۔ اسی طرح بحرالکاہل کے کئی حصے بھی ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں زیادہ زلزلے آنے کا خدشہ رہتا ہے۔


ریکٹر سکیل کیا ہے؟


ریکٹر اسکیل ایک پیمانہ ہے جس سے زلزلے کی شدت کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ریکٹر اسکیل کے موجد ایک امریکی سائنس دان چارلس ریکٹر ہیں جنہوں نے 1935 میں ایک آلہ متعارف کرایا تھا جس میں ایک سے 10 کے اسکیل پر زلزلے کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔


زلزلے کی اقسام


زلزلوں کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ریکٹر اسکیل پر چار درجے سے کم شدت کے زلزلوں کو معمولی یا کمزور نوعیت کا زلزلہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔


چار سے زیادہ اور چھ سے کم درجے کا زلزلہ درمیانی شدت کا زلزلہ کہلاتا ہے، جس سے تھوڑا بہت نقصان پہنچ سکتا ہے، جیسے چینی کے برتن اور پلیٹیں وغیرہ ٹوٹ سکتی ہیں۔ جب کہ ریکٹر اسکیل پر 6 سے 7 شدت کے زلزلے عمارتوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جب زلزلے کی شدت 8 کے ہندسے بڑھتی ہے تو وہ تباہ کن شکل اختیار کر سکتا ہے۔ عمارتیں ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں، سڑکیں اور ریلوے لائنیں ٹوٹ پھوٹ سکتی ہیں۔


زلزلے میں کیا کرنا چاہیے؟


زلزلے کی صورت میں فوری طور پر عمارت سے باہر کھلی جگہ پر چلے جانا چاہیے۔ اگر باہر نکلنا ممکن نہ ہو تو میز یا اسی نوعیت کی کسی دوسری چیز کے نیچے پناہ لینی چاہیے تاکہ آپ خود کو چھت یا دیواروں سے ممکنہ طور پر گرنے والے ملبے سے بچا سکیں۔ زلزلے کے دوران کھڑکیوں، بھاری فرنیچر اور بڑے آلات وغیرہ سے دور رہیں۔


جدید تاریخ کے چند تباہ کن زلزلے


26 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا میں 9 اعشاریہ 1 شدت کے زلزلے میں دو لاکھ 27 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


12 جنوری 2010 کو ہیٹی میں 7 درجے کے زلزلے نے دو لاکھ 22 ہزار سے زیادہ زندگیوں کے چراغ گل کر دیے تھے۔


12 مئی 2008 میں چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان میں 7 اعشاریہ 8 قوت کے زلزلے میں 87 ہزار افراد ہلاک اور پونے چار لاکھ زخمی ہو گئے تھے۔


8 اکتوبر 2005 میں پاکستان کے شمال اور متنازع کشمیر کے علاقوں میں 7 اعشاریہ 6 طاقت کے زلزلے میں 73 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو گئے تھے۔