علی وزیر کے حلقے کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

علی وزیر کے حلقے کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر شیریں مزاری کے گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ علی وزیر کے حلقے کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ علی وزیر کا کیس اس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لیکن وہ دو سالوں سے زیر حراست ہے۔

شیریں مزاری کے وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ انکوائری کمیشن نے انکوائری مکمل کر لی ہے اب رپورٹ آنا باقی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی رپورٹ آ گئی ہے؟ جس پر وکیل فیصل چوہدری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کی رپورٹ متعلقہ بھی نہیں ہے، کمیشن کی رپورٹ آنے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اس وقت پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے تو شیریں مزاری قومی اسمبلی اجلاس میں جا کر اپنے حلقے کی نمائندگی کریں۔

وکیل فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ شیریں مزاری کا استعفی منظور کیا جا چکا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کا وہ نوٹیفکیشن تو غیرآئینی تھا۔ فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ جن 11 ممبران کے استعفے منظور کیے گئے، شیریں مزاری ان میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا وفاقی دارالحکومت میں لوگ محفوظ نہیں ہیں اور یہ عدالت کیسز وفاقی کابینہ کو بھیجتی رہی لیکن وہ کچھ نہیں کرتے، یہ عدالت اختیارات کی تقسیم پر یقین رکھتی ہے اور ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ کمیشن بنائیں تو اٹھائے گئے تمام ایشوز کو سامنے رکھیں گے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ چ

یف جسٹس نے حکم دیا کہ ایسے ٹی او آرز بنائیں کہ آئندہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اسے اٹھایا گیا یا ٹارچر کیا گیا ہے ،جو لوگ اپنے رسک پر آواز اٹھاتے ہیں ریاست ان سے کیوں ڈرتی ہے؟ یہ آواز اٹھانے والوں پر مشتمل کمیشن بنائیں، یہ بیوروکریٹس کا کام نہیں رہا، اگر آپ نے یہ سب روکنا ہے تو افراسیاب خٹک جیسے لوگوں کو کمیشن کا حصہ بنائیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت آج کچھ نہیں کر رہی آپ پر چھوڑتی ہے کہ ان تمام ایشوز کو کیسے حل کرتے ہیں، کوئی عام شہری جو عدالت نہیں پہنچ سکتا اسکا شکوہ نہیں رہنا چاہیے کہ اسے اٹھایا گیا۔

عدالت نے کہا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرائیں ورنہ وزیراعظم عدالت کے سامنے پیش ہوں ،یہ عدالت نہیں چاہتی لیکن یہ بہت اہم نوعیت کا معاملہ ہے،کیا کبھی کوئی سول چیف ایگزیکٹو کہہ سکتا ہے کہ وہ بے بس ہے؟ یہ عدالت انوسٹی گیشن نہیں کریگی نہ یہ اس عدالت کا کام ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ انوسٹی گیشن ایگزیکٹو کا کام ہے اور انہوں نے ہی کرنا ہے، آپ کہتے ہیں کہ آپ خود بھی متاثر رہے تو آپکی حکومت کو تو زیادہ کام کرنا چاہیے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بیماری یہ ہے کہ جو اقتدار میں ہوتا ہے وہ اقتدار کے مزے لیتا ہے اور اقتدار میں ہوتے ہوئے پولیس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے،اپوزیشن میں جا کر وہی لوگ پولیس کے غلط استعمال کا شکوہ کرتے ہیں۔

جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے اور آپ جو کمیشن بنائیں گے وہ آپکی نیت واضح کر دیگا، کمیشن کی تشکیل بتا دے گی کہ آپکی معاملے میں کس حد تک سنجیدگی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ماورائے عدالت قتل کا بھی یہی طریقہ ہے جو شیریں مزاری کا کیس ہے، کیس کہیں اور کا ہوتا ہے اور غلط طریقہ کار استعمال کر کے کہیں اور سے اٹھایا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا پی ٹی ایم کے کیسز میں کہا تھا کہ اس عدالت کی حدود میں بغاوت کے مقدمے نہ بنائے جائیں، اس آرڈر کے بعد بھی بغاوت کے مقدمے بنا دیے گئے، اگر دشنام درازی کی جائے گی اداروں کے خلاف جائے گا تو ایسا مقدمہ بنے گا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ بیماری کئی سال سے موجود ہے، بیماری یہ ہے کہ پاور میں بیٹھا شخص پاور کے غلط استعمال کو انجوائے کرتا ہے، بیماری یہ ہے کہ اپوزیشن میں جس کو برا بھلا کہا جائے حکومت میں آکر وہی کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چلیں عدالت خود کچھ نہیں کرتی آپ پر چھوڑ دیتے ہیں ، آپ یقینی بنائیں کہ کوئی لاقانونیت کا گلہ لیکر عدالت نہ آئے، کوئی آکر نہ کہے اسے غیر قانونی طور پر اٹھایا گیا یا ٹارچر کیا گیا۔

شیریں مزاری کی گرفتاری اور اس نوعیت کے دیگر کیسز پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو مناسب اقدامات کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کر دی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔