ریاستی ادارے بلوچ طلبہ کو ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے وہ شہری نہ ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ

ریاستی ادارے بلوچ طلبہ کو ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے وہ شہری نہ ہوں، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ بلوچ طلباء کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی ادارے بلوچ طلبہ کو ایسی نظروں سے دیکھتے جیسے وہ شہری نہ ہوں۔

عدالت نے وزارت انسانی حقوق پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس معاملے سے بڑا کوئی ایشو ہوسکتا ہے، ایک صوبے کے طلبہ وفاق میں آکر آپ سے احتجاج کرتے رہے کہ ہمیں ہراساں کیا جارہا ہے؟ بلوچستان کے لوگ کیوں یہ محسوس کرے کہ انکو الگ طریقے سے ڈیل کیا جارہا ہے؟

درخواست گزاروں کی جانب سے وکیل ایمان زینب مزاری عدالت میں پیش ہوئی جبکہ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں عدالت نے ایک کمیشن بنایا تھا اس کا کیا ہوا؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس پر کام ہورہا ہے اور وزیر قانون جلد ہی بلوچستان جائیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلوچ طلبہ کو ملک بھر میں ہراساں کیا جارہا ہے، گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت نے بلوچ طلبہ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

ایمان مزاری ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر 31 کیسسز وزارت داخلہ بیجھے گئے، 17 سالہ فیروز بلوچ کو اٹھایا گیا اور ابھی تک کوئی پتہ ہی نہیں چلا؟

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو یہ سب کررہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو اس معاملے کو حل کرنے کی یقین دہانی کرادی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں سے طلبہ گھر جاتے ہیں اور وہاں سے اغوا ہوتے ہیں، بلوچ طلباء سے بڑا کوئی اور مسئلہ نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہزارہ سے تعلق رکھنے والے طلباء کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے، ہزارہ طلبہ کے ساتھ آج سے نہیں تقریباً 40 سال سے یہ سب ہوتا آرہا ہے ،چئیرمین سینٹ نے تین بار میٹنگ بلانا چاہی مگر وہ نہیں کرسکے، مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اس مسئلے کو کتنی اہمیت دے رہی ہے لیکن یہ بتا سکتا ہوں کہ موجودہ حکومت کی یہ پالیسی نہیں ہے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ کمیشن کے کمپوزیشن کو دیکھ لیں اور پڑھ لیں، کس سیاسی جماعت نے اس معاملے کو اپنی اولین ترجیح بنائی ہے؟ کسی سیاسی جماعت نے صادق سنجرانی سے پوچھا کہ کمیشن کا کیا بنا؟ کیا انکی قیادت جلسوں میں یہ باتیں بتاتے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی کمیشن میں اچھے سے اچھے لوگ موجود ہیں اور اس معاملے کو حل کریں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کے ممبران کو رابطہ کرنے اور بلوچ طلبہ کمیشن کے ٹی او آرز طے کرنے کی ہدایت کردی۔ حفیظ بلوچ کی واپسی سے متعلق جواب عدالت کو جمع کر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے حفیظ بلوچ کی بازیابی سے متعلق درخواست کو نمٹانے استدعا کردی۔

عدالت نے کیس کی سماعت 30 سمتبر تک کے لئے ملتوی کردی۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔