مراد سعید کی سوات بدامنی پر سکیورٹی اداروں پر تنقید، ماضی میں انہی پالیسیوں کا دفاع کرتے رہے

مراد سعید کی سوات بدامنی پر سکیورٹی اداروں پر تنقید، ماضی میں انہی پالیسیوں کا دفاع کرتے رہے
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سوات سے رکن قومی اسمبلی مراد سعید نے منگل کی صبح سوات میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں وہ سوات کے عام شہریوں اور سکول کے بچوں پر طالبان کے حملے اور سوات میں بڑھتی ہوئی بد امنی پر کافی جذباتی دکھائی دیے۔ انہوں نے نام لیے بغیر سکیورٹی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ صوبے میں حکومت تو ہماری ہے مگر آپ کون ہوتے ہو ہمارے فیصلے کرنے والے؟ مراد سعید نے مزید کہا کہ آپ (سکیورٹی اداروں) نے تو کہا تھا کہ سوات میں امن قائم ہو گیا ہے مگر یہاں پر تو امن نہیں ہے، آئے روز نہتے شہریوں اور سکول جانے والے معصوم بچوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

تاہم، جب پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور وزیرستان سے ارکانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے بارہا اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان پھر سے سرگرم نہ ہو جس سے علاقے کا امن تباہ نہ ہو، اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے ان تنبیہات پر عمل کرنے کی بجائے محسن داوڑ اور علی وزیر پر غداری کے مقدمات بنوائے گئے۔ مراد سعید آج سکیورٹی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ماضی میں ان کے دور حکومت میں سکیورٹی کے اداروں کو طالبان سے مذاکرات کی ہدایات دی گئی تھیں۔ سلیم صافی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ یہ مذاکرات پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت ہی کرتی رہی تھی۔




نیا دور کی ویڈیو بھی دیکھیے:






سینیئرصحافی سلیم صافی نے اپنے 12 اکتوبر 2022 کو اپنے جنگ اخبار کے کالم میں لکھا ہے کہ:

"اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو براہ راست ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اجازت یا ہدایت دی۔ ان کی طرف سے افغان طالبان سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی کو ہمارے ساتھ مذاکرات کے لیے بٹھائیں۔ چنانچہ عمران خان کی حکومت میں ٹی ٹی پی کی قیادت اور پاکستانی حکام آمنے سامنے ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔

"دوبارہ مذاکرات کے آغاز کے لیے ٹی ٹی پی کے 100 کے قریب افراد پی ٹی آئی حکومت نے رہا کیے۔ پھر جب حکومت تبدیل ہوئی تو اس معاملے کو وفاقی حکومت کے سپرد کرنے کی بجائے بعد میں یہ مذاکرات کور کمانڈر پشاور یا پھر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کرتی رہی۔

"بلاول بھٹو جو پاکستان کے وزیرخارجہ ہو کر بھی نہ آج تک افغانستان گئے ہیں اور نہ ان مذاکرات کا حصہ رہے۔ مذاکرات کے لیے پختون خوا سے سرکاری مالکان کی ٹیم مراد سعید کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ محمود خان کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی قیادت میں جاتی رہی لیکن نہ جنگ بندی ہوئی اور نہ مسئلہ حل ہوا۔

"اب پی ٹی آئی کے رہنما اندرونی سیاست کی وجہ سے فوج پر الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے جان بوجھ کر طالبان کو بلایا۔ پی ٹی آئی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف پی ٹی ایم کے مقابلے میں دس گنا زیادہ سازشی تھیوریاں عوام کے ذہنوں میں بٹھا رہی ہے۔

"سوات اور وزیرستان کے حالات کی فکر کرنے کی بجائے پختون خوا حکومت کے حکام عمران خان کے جلسوں یا پھر اسلام آباد مارچ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً وزیراعلیٰ محمود خان کا ہیلی کاپٹر عمران خان تانگے کی طرح جلسوں کے لیے استعمال کررہے ہیں لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران اسی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر وہ ایک مرتبہ بھی اپنے حلقے سوات نہیں گئے"۔

' مراد سعید کا گھر TTP کی چھاؤنی تھا'

پاکستان تحریک انصاف اور تحریک طالبان پاکستان کے مابین رابطوں اور گٹھ جوڑ سے پردہ اٹھاتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان زاہد خان نے نیا دور کے پروگرام "پختون خوا ٹوڈے" میں گذشتہ ماہ رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ شاہ فرمان سے ٹی ٹی پی نے اس وقت 2 کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا مگر ان کے درمیان 70 لاکھ کی ڈیل ہوئی۔ زاہد خان نے مزید انکشاف کیا کہ 2007 اور 2008 میں موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان ٹی ٹی پی کو سوات میں اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں جب کہ آج  سوات کے امن کے تباہ ہونے کا واویلا کرنے والے مراد سعید کا گھر ٹی ٹی پی کی چھاؤنی بنا ہوا تھا۔

https://twitter.com/RifatOrakzai/status/1575198782681411585