عمران خان نے پیغام بھیجا آرمی چیف کے لئے تین نام میں دیتا ہوں، تین آپ دے دیں: شہباز شریف کا انکشاف

عمران خان نے پیغام بھیجا آرمی چیف کے لئے تین نام میں دیتا ہوں، تین آپ دے دیں: شہباز شریف کا انکشاف
وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ آرمی چیف کی تعیناتی پر مذاکرات سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وزیر اعظم کا آئینی اختیار ہے اور اس پر مشاورت نہ ماضی میں ہوئی ہے نہ ہی اب ہوگی۔

لاہور میں یوٹیوبرز سے ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ پاکستان کے ایک بڑے بزنس مین عمران خان کا پیغام لے کر ان کے پاس آئے تھے کہ ہم آپ سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ "میں نے انہیں جواب دیا کہ اب آپ کو مذاکرات یاد آ رہے ہیں؟" شہباز شریف نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر بات نہیں ہو سکتی۔

تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے تجویز آئی تھی کہ تین نام عمران خان پیش کریں گے اور تین ہی نام حکومت دے دے اور پھر مشاورت سے کسی ایک نام پر اتفاق کر لیا جائے۔

شہباز شریف نے کہا کہ میرا جواب صاف تھا۔ "جب 2019 میں عمران خان نے جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع دی تھی تو کیا مجھ سے مذاکرات کیے تھے؟ ہم نے تو 2018 میں 'جھرلو' الیکشن کے باوجود کہا کہ ایک میثاقِ معیشت پر مل کر بیٹھ جائیں۔ تب یہ ہمیں کہتے تھے، مجھ سے NRO مانگ رہے ہیں۔ اب مذاکرات یاد آ گئے۔"

اس سوال پر کہ کیا ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کو پریس کانفرنس کرنی چاہیے تھے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی چیف نے پریس کانفرنس سے پہلے مجھ سے بات کی تھی۔ "ان کا کہنا تھا کہ ایسے کچھ معاملات ہیں جن کا میں عینی شاہد ہوں اور ڈی جی ISPR ان ملاقاتوں کا حصہ نہیں تھے۔ میں ادارے کی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں"۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان نے ادارے پر حملے کیے ہیں تو ڈی جی آئی ایس آئی جو بھی جواب کا حق ہونا چاہیے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ عمران خان بار بار چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیا ان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن غیر متنازع الیکشن کروا سکے گا؟ جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر آئینی پوزیشن ہے، میں انہیں نہیں ہٹاؤں گا اور نہ ہی میں انہیں ہٹا سکتا ہوں۔ وہ ایک قابل افسر ہیں۔

ملاقات کے دوران شہباز شریف لانگ مارچ پر بات کر رہے تھے۔ بدن بولی کے اعتبار سے وہ خاصے پراعتماد نظر آئے۔ شہباز شریف نے اس صورتحال کو اپنے چند روز میں شروع ہونے والے دورۂ چین سے جوڑتے ہوئے کہا کہ 2014 کے لانگ مارچ کے وقت بھی چینی صدر نے پاکستان آنا تھا اور ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری پر کام شروع کرنے والے تھے جب عمران خان نے دھرنا دے دیا تھا۔ شہباز شریف نے انکشاف کیا کہ وہ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف سے اجازت لے کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پاس گئے تھے اور ان سے درخواست کی تھی کہ وہ چینی ہم منصب سے گفتگو کریں اور انہیں پاکستان آنے کے لئے راضی کریں۔ شہباز شریف کے مطابق آرمی چیف نے کوشش بھی کی لیکن چینی ہم منصب نے کہا کہ اب شاید یہ ممکن نہ ہو پائے۔ اور اسی وجہ سے یہ سرمایہ کاری آنے میں سات ماہ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

دورانِ ملاقات شہباز شریف نے متعدد مرتبہ توشہ خانہ میں عمران خان کی 'چوری' کا ذکر کیا۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی 'چوری' توشہ خانہ میں نہیں بلکہ وہ 50 ارب روپے کی ہے جو عمران خان نے زمین کے بدلے ملک ریاض کو معاف کر دیے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو نیک نیتی سے سپورٹ دی، بلکہ کچھ زیادہ ہی سپورٹ دی، 'سپر' سپورٹ دی۔ لیکن عمران خان انتہائی نااہل تھے۔ اس کا 20 فیصد بھی ساتھ ہمارا دیا گیا ہوتا تو نواز شریف ملکی معیشت کو کہیں آگے لے جاتا۔

وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ ملک میں مہنگائی کا سیلاب سیاسی طور پر بھی آپ کے لئے سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ جنرل باجوہ 2020 میں ایک انتہائی اہم پالیسی تقریر میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو ایک نارمل ملک دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کرے، تو کیا حکومت کا بھارت سے کچھ ضرورت کی اشیا منگوانے کا ارادہ ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ میں تو تیار ہوں تجارت کے لئے لیکن وہ بھی تو آگے بڑھیں۔ کشمیر میں مودی جو کچھ کر رہا ہے، ایسی صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟

بعد ازاں ریفرشمنٹ کے دوران ایک صاحب نے وزیر اعظم کے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیر ملے گا تو ہی پیاز خریدنی ہے تو بس پھر سمجھ لیں پیاز بھی نہیں ملے گی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.