ارشد شریف کینیا کا ویزا بہت پہلے حاصل کرچکے تھے، نئے انکشافات سامنے آگئے

ارشد شریف کینیا کا ویزا بہت پہلے حاصل کرچکے تھے، نئے انکشافات سامنے آگئے
ممتاز صحافی اور اینکرارشد شریف کے  قتل کیس میں ان کے دبئی چھوڑنے اور کینیا جانے کے حوالے سے متضاد آراء سامنے آرہی تھیں کہ انہوں نے کینیاکا انتخاب اس لئے کیا کہ وہاں ویزا آن آرائیول کی سہولت فراہم کی جاتی ہے تاہم اب اس حوالے سے  نئے انکشافات سامنے آئیں ہیں کہ ان کا انتخاب روز اول سے ہی کینیا تھا اور وہ بہت پہلے  ہی وہاں کا ویزا حاصل کر چکے تھے۔

حقائق ڈاٹ کام کی  نمائندہ عمارہ شاہ کی جانب سے بدھ کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 8 اگست کو ارشد شریف نے کینیا میں وزٹ ویزے کے لیے درخواست کی تھی اور  انہیں اسی دن کینیا کا وزٹ ای ویزا آن لائن جاری ہوگیا تھا۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ارشد شریف کی ویزا درخواست کے ساتھ وقار احمد کی جانب سے 7 اگست کو جاری کیا گیا سپانسر لیٹر بھی فراہم کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا "کینیا میں ارشد شریف کے میزبان دو بھائی وقار احمد اور خرم احمد تھے جو وہاں اسلحے اور پراپرٹی ڈویلپمنٹ سمیت مختلف کاروبار کرتے ہیں۔ اسلحہ چلانے کی پروفیشنل تربیت دینے کے ایک اہم ادارے ایموڈمپ کے مالک ہیں۔ ایمو ڈمپ کی ویب سائیٹ کے مطابق یہ ادارہ پولیس، انٹیلیجنس، لا انفورسمنٹ ایجنسیز اور دیگر حکومتی ایجنسیز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم سے منسوب میڈیا اطلاعات کے مطابق کینیا میں ارشد شریف کے میزبان بھائیوں میں سے وقار احمد  نے 7 اگست کو ارشد شریف کو ایک سپانسر لیٹر جاری کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے دعوے کے مطابق 8 اگست کو ارشد شریف نے کینیا میں وزٹ ویزے کے لیے درخواست کی اور اس کے ساتھ وقار احمد کا سپانسر لیٹر لگایا اور انہیں اسی دن کینیا کے لئےوزٹ ای ویزا جاری ہوگیا۔"

اب تک ارشد شریف کے حوالے سے بتایا جارہا تھاکہ جب وہ پاکستان چھوڑ کر دبئی گئے تو  دبئی حکام پر ان کے حوالگی کے لئے دباو ڈالا جانے لگا اور اس سے قبل کہ ایسا ہوتا ارشد شریف کو ان کے قریبی لوگوں نے مطلع کیا جس کے بعد انہوں نے دبئی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اب بظاہر یہ بتایا جاتا ہے کہ ارشد شریف نے کینیا کا انتخاب ویزا کے آسان حصول کی وجہ سے کیا لیکن اس رپورٹ میں کئے گئے دعوے کے بعد معاملے کے ابہام و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ کینیا کا ویزا تو وہ پہلے ہی حاصل کر چکے تھے۔

ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات تو جاری ہیں تاہم حالیہ رپورٹ نے اس کیس کی تحقیقات کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔

اس سےقبل حکومت پاکستان کی جانب سے ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے کینیا بھیجی گئی ٹیم کے ملک واپس آنے کے بعد وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں انہوں  نے کہا تھا کہ اگرچہ اس معاملے میں مزید تفتیش درکار ہے لیکن ابتدائی معلومات سے یہ لگتا ہے کہ کینیا کی پولیس کا ’ شناخت میں غلطی‘ کا موقف درست نہیں اور اس بارے میں کافی شکوک و شبہات ہیں۔ بادی النظر میں ارشد شریف مرحوم کو قتل کیا گیا ہے اور یہ ٹارگٹڈ قتل تھا۔

وزیرداخلہ نے مزید کہا کہ ارشد شریف کیس میں کینیا میں ان کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد کا کردار اہم ہو گا۔

واضح رہے کہ کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔