'عدالت مداخلت نہ کرتی تو انتخابات ہو چکے ہوتے'؛ فواد چودھری نے ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا

'عدالت مداخلت نہ کرتی تو انتخابات ہو چکے ہوتے'؛ فواد چودھری نے ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا
عدالت مداخلت نہ کرتی تو انتخابات ہو چکے ہوتے، فواد چودھری نے ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا۔

پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے عام انتخابات کے جلد انعقاد نہ ہونے کا سارا ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مداخلت نہ کی ہوتی تو عام انتخابات ہو چکے ہوتے اور آج ملک بہتر صورت حال میں ہوتا۔

فواد چودھری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی۔ 1867 میں یہ قانون آیا تھا، سو سال بعد قانون ہی بدل دیا، ایف آئی آر کو ہر حال میں درج کرنا ہوتا ہے۔ یہ قانون بہت واضح ہے کہ ایف آئی آر درج ہو گی اور جس پر شبہ ہے اس کا نام درج کیا جائے گا۔ ہمارا سپریم کورٹ سے مطالبہ ہے کہ فوری نوٹس لیں۔ چیف جسٹس سے گزارش کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے ادارے کو اتنا کمزور نہ کریں کہ پھر لوگ اس کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیں۔ آج پاکستان کے عوام کا اداروں اور عدالتوں پر اعتبار پہلے سے کم ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس اور سینیئر ججز، خصوصاً ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے کہوں گا کہ آپ کا موازنہ دنیا سے ہو رہا ہے، پاکستان کے عدالتی نظام کا اچھا تاثر نہیں جا رہا، لگتا ہے پاکستان 'بنانا ری پبلک' بن گیا ہے، جس میں جو چاہے جو مرضی کرا لے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اب مزید پاکستان کے فیصلے بند کمروں میں نہیں ہو سکتے۔ اگر سپریم کورٹ نے آرٹیکل 69 کی نئی تشریح کر کے سپیکر کے اختیارات میں تجاوز نہ کیا ہوتا اور آج ملک میں نئے انتخابات ہو چکے ہوتے تو ملک آج بہتر صورت حال میں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی فیصلے سیاست دانوں اور پارلیمان نے کرنے ہوتے ہیں۔ جہاں فیصلے نہیں کرنے، وہاں سپریم کورٹ اور عدالتیں فوری فیصلے دیتی ہیں اور جہاں کرنے ہوتے ہیں وہاں منت سماجت سے بھی فیصلے نہیں آتے۔ اصلاح ہی واحد حل ہے۔ آپ فیصلوں کو درست کریں تو ہم ہر ممکن تعاون کریں گے۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے سابق ڈپٹی سپیکر کی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی رولنگ کا حوالہ دے کر کہا؛ 'سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو آج انتخابات ہو چکے ہوتے' تاہم سپریم کورٹ کےتمام جج صاحبان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو متفقہ طور پر غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔ وزیرِ اعظم کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے وکیل نے بیرونی مداخلت سے متعلق مراسلے کا حوالہ دیا، مبینہ بیرونی مراسلے کا مکمل متن عدالت کو نہیں دکھایا گیا، مراسلے کا کچھ حصہ بطور دلائل سپریم کورٹ کے سامنے رکھا گیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ ڈپٹی سپیکر نے قومی سلامتی کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی، عدالت بیرونی مداخلت سے متعلق دلیل سے مطمئن نہیں۔

یہ تفصیلی فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا۔ جبکہ اس تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صدر اور وزیر اعظم نے تین اپریل کو آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی جس کے مطابق سابق سپیکر اسد قیصر، سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری، صدر پاکستان عارف علوی اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر آرٹیکل 6 عائد کرنے کے حوالے سے بھی تجویز دی گئی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس پورے معاملے میں آئین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔ اس فیصلے کی رو سے صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے ناصرف آئینی طور پر تفویض کردہ مقدس امانت میں خیانت کی، جو سب سے بڑا جرم ہے اور اس کی سزا آئین کے آرٹیکل پانچ اور چھ میں درج ہے۔