ارشد شریف قتل: امریکہ کا ایموڈمپ سے ملین ڈالرز کا تربیتی معاہدہ ختم

ارشد شریف قتل: امریکہ کا ایموڈمپ سے ملین ڈالرز کا تربیتی معاہدہ ختم
امریکی انتظامیہ نے کینیا کے شہر نیروبی کے علاقے مگادی میں واقع ایموڈمپ کیونیا شوٹنگ رینج کے ساتھ اپنا 0.4 ملین ڈالرز کا تربیتی معاہدہ منسوخ کر دیا ہے جہاں معروف صحافی ارشد شریف کو قتل کیا گیا تھا ۔

معروف انگریزی اخبار دی نیوز میں منگل کے روز شائع ہونے والی صحافی مرتضیٰ علی شاہ کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کے قتل کے بعد امریکی انتظامیہ نے کیونیا شوٹنگ رینج کے ساتھ اپنا تربیتی معاہدہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جگہ وقار احمد اور اس کے بزنس پارٹنر جمشید خان کی ملکیت ہے جو افریقی ملک میں کئی رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس کے مالک ہیں اور ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ جب صحافی ارشد شریف کا قتل ہوا اس وقت وقار کے بھائی خرم احمد گاڑی چلا رہے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایموڈمپ نے شوٹنگ کے مقام پر امریکی محکمہ خارجہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور انسداد منشیات کے تربیتی پروگرام کے انعقاد کے لیے تربیتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ امریکی سفارتخانہ کے انٹرنیشنل کرمنل انویسٹیگیٹو ٹریننگ اسسٹنس پروگرام اور امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لاء انفورسمنٹ افیئرز کا حصہ تھا ۔ اس معاہدے کے تحت مقامی پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بہتر بنانے اور انسدادِ بین الاقوامی کرائم و عدم استحکام کی تربیت دی جاتی تھی۔

شوٹنگ سائٹ پر انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے دیگر مختلف معاہدے بھی تھے تاہم امریکی انتظامیہ کی جانب سے معاہدہ ختم کردیا  گیا ہے جبکہ کئی دیگر کمپنیوں نے شوٹنگ رینج کے ساتھ اپنے معاہدے معطل کر دیئے ہیں۔ مقامی پولیس اتھارٹی نے سائٹ کے ساتھ تربیتی اور شوٹنگ کی مشقوں سمیت دیگر سرگرمیاں روک دیں۔مقامی پولیس ذرائع نے تصدیق کی کہ شوٹنگ رینج کے مالکان سے کہا گیا کہ وہ تمام کارروائیاں روک دیں۔ پولیس ذرائع نے تصدیق کی کہ متعدد مقامی حکام اس جگہ پر شوٹنگ کے طریقوں کا اہتمام کرتے تھے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی ویب سائٹ پر تصدیق کی ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل انویسٹیگیٹو ٹریننگ اسسٹنس پروگرام کے تحت کینیا نیشنل پولیس کو تربیت دی جارہی تھی جس کا مقصد غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ مل کر پیشہ ورانہ اور شفاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تیار کرنا ہے تاکہ انسانی حقوق کے تحفظ، بدعنوانی سے لڑنے، اور بین الاقوامی جرائم اور دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔

گزشتہ ہفتے جیو نیوز نے انکشاف کیا تھا کہ 23 اکتوبر کو ارشد شریف کے قتل والی رات کو اس شوٹنگ سائٹ پر تقریباً 10 امریکی انسٹرکٹرز موجود تھے۔

وقار احمد اور جمشید خان نے تقریباً 7 برس قبل ایموڈمپ رینج کا آغاز کیا تھا۔ سائٹ کی ویب سائٹ کے مطابق، یہاں آتشیں اسلحہ کے استعمال کی تربیت، فوجی شوٹنگ کی تربیت، بائیک، اور موٹر سواری کے علاوہ کیمپنگ کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سائٹ پر بجلی دستیاب نہیں اور جنریٹر استعمال کیے جاتے ہیں۔ شوٹنگ کی جگہ کئی ایکڑ وسیع و عریض اراضی پر پھیلی ہوئی ہے جہاں کسی بھی سمت کئی کلومیٹر تک انسانی آبادی نہیں ہے۔ ایمو ڈمپ جحکومتوں، افراد اور نجی سیکورٹی کمپنیوں کو  اہلکاروں کی پیشہ وارانہ شوٹنگ کی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ شوٹنگ کی جگہ کا انتظام بنیادی طور پر وقار احمد، ان کی اہلیہ مورین اور جمشید خان کرتے ہیں۔

پاکستانی تحقیقاتی افسران نے کینیا کے حکام سے تحریری طور پر درخواست کی کہ شوٹنگ کے وقت ایموڈمپ ٹریننگ کیمپ میں تربیت حاصل کرنے والے انسٹرکٹرز اور ٹرینرز کے نام اور رابطے کی تفصیلات فراہم کریں۔ ایموڈمپ لمیٹڈ کمپنی کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ کہ یہ کینیا کی رجسٹرڈ کمپنی ہے جس کی پیرنٹ کمپنی ایموڈمپ سیکیورٹیز انکارپوریٹڈ کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں رجسٹرڈ ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ 2015 میں چند ہم خیال افراد  نے مل کر ایموڈمپ کا آغاز کیا ۔ہم دفاعی اور حفاظتی آلات میں مہارت رکھتے ہیں اور پیشہ وارانہ شوٹنگ کی مہارتوں کو بہتر بنانے کے لئے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ ایموڈمپ کے پارٹنرز بھی اسلحے کی تجارت اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ مقتول پاکستانی صحافی کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، جب وہ GSU ٹریننگ کالج کے ساتھ کسریان/مگادی روڈ پر ایک گاڑی میں سفر کررہے تھے جس کا رجسٹریشن نمبر DG 200M تھا۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو نامور پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد کینیا پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔

یاد رہے کہ کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔