'جب تک نیا آرمی چیف چھڑی نہیں پکڑ لیتا یقین نہیں آئے گا'

'جب تک نیا آرمی چیف چھڑی نہیں پکڑ لیتا یقین نہیں آئے گا'
جنرل باجوہ نے آج اپنی تقریر میں فوج کی جانب سے سیاست میں مداخلت کرنے کا جس طرح اعتراف کیا یہ ان کے ذاتی احساس جرم کا اقرار ہے۔ جنرل صاحب نے ایسا کہہ کر اپنا ذہنی بوجھ کو اتارنے کی کوشش کی ہے۔ مگر سانحہ مشرقی پاکستان محض سیاسی غلطی نہیں تھی کیونکہ اس وقت ایک فوجی جنرل ملک کا سربراہ تھا اور اس سے پہلے بھی فوجی جنرل ہی حکمران تھا۔ انہیں چاہئیے تھا کہ آج اس طرح کا اعلان کرتے کہ اس سانحے سے متعلق جو آزادانہ انکوائری ہوئی تھی وہ تحقیق نصاب میں پڑھائی جانی چاہئیے۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی عامر غوری نے کہا کہ جنرل باجوہ آج جاتے ہوئے سلیکٹڈ کہنے والوں کو بھی رگڑ رہے ہیں اور امپورٹڈ کہنے والوں کو بھی مگر ان سے پوچھنا چاہئیے کہ اس سب کے پیچھے کون تھا؟ انہوں نے کہا کہ فوج کو فارن پالیسی سے پیچھے ہٹ جانا چاہئیے۔ امریکہ، روس، چین، بھارت، سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کیسے ہوں گے، یہ سویلین قیادت کو فیصلہ کرنے دیں۔ معاشی فیصلوں سے دور رہیں۔ بین الصوبائی معاملات سے دور رہیں۔ پاک فوج کے بقول جن لوگوں کو آپ پہلے سلیکٹ کرتے ہیں بعد میں وہی ملک کے لئے خطرناک ثابت ہوتے ہیں تو آپ مان لیں کہ آپ کی سلیکشن خراب ہے۔ اس ملک کا اصل میں بیڑا غرق آپ نے کیا ہے۔

ممتاز صحافی مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کے کسی فوجی کو اس طرح کی تقریر کبھی نہیں کرنی چاہئیے تھی جیسی جنرل باجوہ نے آج کی ہے مگر اسے آخری تقریر کہنا قبل از وقت ہے۔ 29 نومبر کو جب تک نیا آرمی چیف چھڑی نہیں پکڑ لیتا تب تک یقین نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ کھلواڑ روکنے سے آلودگی ختم نہیں ہو جاتی۔ فوج نے آج تک اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے اثرات ختم نہیں کئے جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کا پہلا کام خطرات سے نمٹنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فوج مکمل طور پر نیوٹرل ہو جاتی ہے تو سب کچھ خود بخود ٹھیک نہیں ہو جانا۔ فوج سے زیادہ مسئلے سویلینز کے ہیں۔ سیاسی قیادت کو ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ جنرل باجوہ کی جانب سے کی جانے والی الوداعی تقریر کو غیر متنازعہ رکھا جاتا تو ان کے لئے اور ان کے ادارے کے لئے بہتر تھا۔ جہاں تک سیاست سے الگ ہونے کا تعلق ہے تو یہ اعلان آنے والا چیف کرے تب بھی بات بنتی ہے، باجوہ صاحب تو رخصت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ہماری فوج کمزور ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ فوج مضبوط ہو اور ملک کی طبعی سرحدوں کی حفاظت کرے نہ کہ نظریاتی سرحدوں کی۔ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری منتخب نمائندوں کے پاس ہونی چاہئیے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ جنرل باجوہ سے یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ آرمی چیف کس حیثیت میں ڈاکٹرائن دے رہا ہے؟ یہ کام منتخب نمائندوں کا ہے۔ ان سے یہ بھی سوال ہونا چاہئیے کہ فوج کے پہلے والے فیصلوں کے مضمرات کیسے ختم کئے جائیں گے؟ اس ملک کی معاشی ابتری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے اور فوج شروع سے سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ ایک تقریر سے سارا گند صاف نہیں کیا جا سکتا۔ رضا رومی نے اعلان کیا کہ ایک روز قبل نیا دور کے اسی شو میں احمد نورانی کی آرمی چیف جنرل باجوہ کے اثاثے ظاہر کرنے والی رپورٹ سے متعلق جو گفتگو ہوئی وہ نیا دور کی ادارتی پالیسی ہرگز نہیں ہے۔