'ملک کو آج ڈیفالٹ کا خطرہ ہے، کل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اگلے سال ہو گا'

'ملک کو آج ڈیفالٹ کا خطرہ ہے، کل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اگلے سال ہو گا'
اس وقت ڈیفالٹ کے خطرے والی باتیں سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کی جا رہی ہیں حالانکہ پاکستان کو نہ آج ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ ہے، نہ کل ہو سکتا ہے اور نہ ہی اگلے سال ہوگا۔ عمران خان کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ جتنی زیادہ وہ ڈیفالٹ کی بات کریں گے عوام اتنے ہی زیادہ (ن) لیگ سے اپنی امیدیں لگا لیں گے اور یہ اب ثابت ہو چکا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت ہمیشہ ملک میں معاشی استحکام لاتی ہے۔ یہ کہنا ہے معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر اقدس افضل کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے اندر بھی دو تین آرا ہیں، ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون بات کر رہا ہے اور کس وقت کر رہا ہے۔ مفتاح اسماعیل کی بات سے میں اتفاق نہیں کرتا کہ ائی ایم ایف پروگرام کو کوئی خطرہ درپیش ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک میں معاشی استحکام نظر آئے گا۔ اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ حکومت کے اندازے سے بھی کم ہونے جا رہا ہے۔

معروف دانش ور ضیغم خان کا کہنا تھا کہ یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ عمران خان عوام کو متحرک کر کے نہ تو حکومت سے کوئی بات منوا سکتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ سے منوا سکے ہیں۔ عمران خان دباؤ ڈال کر اسٹیبشلمنٹ کو اپنی طرف لانا چاہتے تھے مگر وہ اس میں ناکام رہے۔ انہوں نے عدلیہ کو ایک حد تک دباؤ میں رکھا مگر اب عدلیہ بھی ان کے دباؤ میں نظر نہیں آ رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ ٹوئٹس اور پیغامات کو نظرانداز کرنا بہتر ہوتا ہے۔ فوج کو چاہئیے تھا کہ اعظم سواتی کے خلاف سول مقدمہ دائر کر دیتے۔ اعظم سواتی کسی ادارے کے دادے نانے نہیں ہیں، اگر گالیاں دیں گے تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ انہیں صرف عمر کی وجہ سے ہمدردی نہیں ملنی چاہئیے۔

آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے جس طرح کشمیر پہ قبضہ کیا اس پر پی ٹی آئی کا بہت ہی کمزور ردعمل بھی ان کے غیر مقبول ہونے کی ایک وجہ ہے۔ اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا ایک رجحان نظر آ رہا ہے۔ اس کا تعلق پی پی پی کی نوجوان قیادت سے ہو سکتا ہے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ فوری طور پر اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کے ساتھی الیکٹیبلز کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ نہیں جائے گی۔ پرویزالہیٰ کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ اسمبلی چلتی رہے کیونکہ عام انتخابات کے بعد ان کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات محدود ہیں۔ بہت سارے ماہرین نے تصدیق کی ہے اور آئین کا آرٹیکل 136 واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد جاری اجلاس کے دوران بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ بھی آئین کے آرٹیکل 112 کے تحت کسی بھی وقت اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے اور ابتدائی نتائج کے مطابق سب سے زیادہ 97 سیٹیں پاکستان پیپلز پارٹی نے حاصل کی ہیں، دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی ہے جس نے 96 جبکہ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ (ن) نے 85 سیٹیں جیتی ہیں۔ پی پی پی اور (ن) لیگ کی سیٹیں ملا لیں تو تحریک انصاف بہت پیچھے کھڑی ہے۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ (ق) لیگ کی سیاست کا مرکز ہمیشہ سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ رہی ہے، پرویزالہیٰ اس مرغی کا خاتمہ نہیں چاہیں گے جو سونے کے انڈے دیتی ہے۔ پروگرام 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔